Jadeediat Aur Ghalib, Danyal Tareer Ki Nazar Mein
جدیدیت اور غالب، دانیال طریر کی نظر میں
مرزا اسد اللہ خان غالب کی شخصیت اور فن پر کئی ضخیم کتابیں لکھی گئی ہیں، مگر دانیال طریر کی کتاب "جدیدیت، مابعد جدیدیت اور غالب" تفہیم غالب کے سلسلے میں ایک نایاب اضافہ ہے۔ یہ کتاب کم و بیش 130 صفحات اور چھے مضامین پر مشتمل ہے۔ کتاب کی سادہ اور پرخلوص زبان سے اندازہ ہوتا ہے کہ دانیال طریر نے یہ کتاب طلبہ کے لیے لکھی ہے۔ غالب پر لکھی گئی اکثر کتابوں سے طلبہ اس لیے بھی استفادہ نہیں کر سکتے کہ وہ اساتذہ یا عالموں کے لیے ہوتی ہیں۔
"جدیدیت، ما بعد جدیدیت اور غالب" میں مرزا اسد اللہ خان غالب کو جدید شاعر ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ کتاب میں غالب کو جدید ثابت کرنے کے لیے دانیال طریر نےجدیدیت اور جدیدیت کی چند ممتاز خصوصیات یعنی تجربیت، تغیریت، انفرادیت، موضوعیت، معاصریت، وجودیت اور معنویت کو کلام غالب کے تناظر میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ غالب کا جدیدیت کے تناظر میں مطالعہ کرنا ایک نئی کوشش ہے۔
دانیال طریر کے نزدیک جدیدیت دراصل ماضی کی نفی، بنے بنائے طے شدہ اور عرصہ دراز سے رائج اقداری و اعتقادی نظام کے استرداد میں پوشیدہ ہے۔ یہ استرداد جتنا جاندار اور توانا ہوگا، جدیدیت کی روح اتنی قوی ہوگی۔ غالب نے اپنے سماج کو نئے خطوط پر تعمیر کرنے کے لیے قدیم روایات و اعتقادات کو منہدم کیا۔ قدیم کے انہدام کے لیے غالب نے اعتماد ذات سے کام لیا۔ اپنی ہستی پر اعتماد نے ان کو ہر طرح کی خارجی پابندی سے آزاد کیا۔ وہ آزاد تخلیقی عمل کے داعی تھے۔ غالب کو اپنی ہستی کے تحفظ کا پورا احساس ہے۔ وہ اپنی ذات کی سپردگی نہیں مانتے، بل کہ مقابل کو اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلاتے ہیں۔
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو
جدیدیت نظریات کی تحدیدات پسند نہیں کرتی۔ نظریہ انسان کو اپنی تحدیدات میں اس طرح محصور کر لیتا ہے کہ ان تحدیدات سے باہر کی کوئی بھی حقیقت قابل قبول نہیں رہتی۔ نظریہ انسان کو آفاقی فکر اور اعلی تخلیقی منصب سے محروم کر دیتا ہے۔ نظریہ قلم کو خارجی منشور کا پابند بناتا ہے۔ غالب نے آزادی اور بھرپور ذمہ داری سے فن کو کسی بھی نظریے کا آلہ کار نہیں بننے دیا۔ غالب دینیاتی کونیات Divine-centered world کے برعکس بشر مرکز کونیات mankind-centered world میں اعتقاد رکھتے ہیں۔ وہ دینی امور کے برعکس دنیاوی امور میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ دانیال طریر نے غالب کو ایک سیکولر شاعر کہا ہے۔ تا ہم جدیدیت بھی ایک سیکولر تحریک ہی ہے۔ غالب نے ہمیشہ مذہب کو عقیدے اور عقیدت کے بجائے عقل و تشکیک کے معیارات پر تولا ہے۔ انھوں نے فرشتوں پر آدمی کو، عرش پر فرش کو، ماوارائیت پر ارضیت کو، عبادات پر معاملات کو، عینیت پر حقیقت کو اور مظہریت پر وجودیت کو فوقیت دی ہے۔
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
غالب نے معاصریت (تینوں زمانوں کو بیک وقت نگاہ میں رکھنا) کو اہمیت دی ہے۔ انھوں نے ماضی کی پرستش اور حال کی پوجا کے برعکس، مستقبل کو مدنظر رکھا ہے۔ غالب نے روح عصر کے تجزیے کے لیے عقل اور روح تخلیق کے لیے جذبہ وجدان سے کام لیا ہے، مگر عشق کو عقل کا مقام کبھی نہیں دیا۔ خرد پسندی ان کا اوڑھنا بچھونا تھی، جس نے ان کی شخصیت اور شاعری میں موضوعیت، درون بینی اور تنہائی پیدا کی تھی۔ تنہائی دراصل فرد کو دوسروں سے مختلف ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ اور فرد میں انفرادیت، عصر فہمی اور آئندہ بینی پیدا کرتی ہے۔ غالب سے پہلے عصر شاعروں پر حاوی تھا، جب کہ غالب عصر پر حاوی ہو گئے۔
ہوں گرمی نشاط تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیب گلشن نا آفریدہ ہوں
جدیدیت تجربیت پر یقین رکھتی ہے۔ تجربہ ہر صورت میں ادبی سفر کو آگے بڑھاتا ہے۔ غالب نے سابقہ تجرباتی دور کو رد کرکے نئے تجربے کی بنیاد رکھی۔ غالب نے غزل کی ساخت کے بجائے غزل کا آہنگ تبدیل کر دیا۔ انھوں نے بحور کی روانی کو خیال کی روانی کا پابند بنایا اور بحر کی موسقیت کو اپنے غنائی شعور کے تابع کر دیا۔ اسی طرح شعر کے دونوں مصرعوں کے درمیان صوتی، نفسیاتی، جمالیاتی اور معنوی خلا چھوڑ دیا۔ اور سب سے بڑھ کر رموز و اوقاف کا استعمال کرکے اشعار میں استفہامیہ اور فکاہیہ مزاج پیدا کیا۔
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
غالب نے اردو غزل کو فارسی غزل کے لیے قابل رشک بنایا۔ ان کی شاعری میں فارسی الفاظ، تراکیب اور محاورات پوری شفافیت کے ساتھ جلوہ افروز ہیں۔ انھوں نے فارسی علامتوں، استعارات اور تمثالوں سے مشکل، مرصع اور مبہم اسلوب تشکیل دیا۔ البتہ ان کے عہد کے قارئین اس نئے تجربے کے لیے ہرگز تیار نہ تھے۔ انھوں نے نئے ہیئتی سانچوں، بدلی ہوئی لسانی ساختوں اور انفرادی شعری جمالیات سے اپنے کلام کو جدید بنایا۔
بقا اور فلاح کے پیش نظر تغیرات کے مقابلے یا مطابقت کے لیے انسانی سعی پیہم کا نام جدیدیت ہے۔ غالب نے فکری سطح پر تغیر کے سوا کچھ تسلیم نہیں کیا۔ غالب نے زندگی، اقدار، عقائد، تصورات، احساسات اور افکار کو ہمیشہ تغیر کے پیمانے پر پرکھا۔ وہ تغیر پرست تھے۔ انھوں نے معرفت و اعتراف کے بجائے تشکیک و انحراف کو اہمیت دی۔ ان کا دائرہ تشکیک انسان، سماج، خدا اور کائنات تک پھیلا ہوا ہے۔
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد
عالم تمام حلقہ دام خیال ہے
آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
جدیدیت میں ہمیشہ سے انفرادیت پرستی اور فرد کے ذاتی تجربے کو فن کے لیے آخری معیار سمجھا گیا ہے۔ غالب اپنے زمانے میں موجود تصورات کو پہلے اپنی ذات کے پیمانے پر تولتے ہیں، پھر غور و فکرکے بعد پوری آزادی کے ساتھ اس کی قبولیت یا استرداد کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان کے ہاں حقیقت اور مطلقیت اضافی اقدار ہیں۔ انھوں نے دوسروں کی اترن پر اپنی برہنگی کو بہتر سمجھا۔ وہ نہ کسی سے مرعوب یا متاثر ہوتے تھے اور نہ ہی کسی رسم رواج یا روایت کا اسیر رہتے تھے۔ وہ کشادگی، بے انت تمناؤں، ناتمامی اور دائمی تشنگی کی حامل شخصیت رکھتے تھے۔ ان کے ہاں دو جہان یک نقش پا کے مترادف تھے۔
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آپڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں
غالب اپنے کلام میں مجھے، میرا اور میں کا صیغہ بہت بروئے کار لاتے ہیں، جس سے ان کے اشعار میں طنز اور ظرافت بھی در آئی ہے۔ یہ تعجب خیز اور حیرت انگیز پہلو صرف تفریح کا ذریعہ نہیں، بل کہ یہ خاص فکری زاویہ، حقیقت تک رسائی کا زینہ اور زندگی کو سمجھنے کا سلیقہ بھی ہے۔ ظرافت اور طنز کا یہ جال خود، خدا، محبوب، رسومات اور روایات تک پھیلا ہوا ہے۔
جدیدیت اپنی اساس میں ایک روایت شکن تحریک ہے۔ دراصل تخلیقی توانائی سے محروم اجتماعی تجربے کو روایت کہا جاتا ہے۔ روایت شکنی کے بعد وجود کی تعمیر ممکن ہے۔ جدیدیت کی طرح وجودیت بھی روایتی فکری سلسلوں کے خلاف علم بغاوت اٹھاتی ہے۔ وجودیت نے مظہریت کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ مظہریت میں جوہر کو وجود پر، جب کہ وجودیت میں وجود کو جوہر پر فوقیت و تقدیم حاصل ہے۔ وجودیت میں ہر شخص آپ اپنی زندگی کا معمار ہے۔ وجودیت معروضیت کے برعکس، موضوعیت کو اہمیت دیتی ہے۔ یہ آزادی، خود مختاری اور ذمہ داری وجود کو وقار اور بلندی کے ساتھ ساتھ کرب، مایوسی اور تنہائی بھی دیتی ہے۔ تنہا انسان آپ اپنا پابہ زنجیر خدا ہوتا ہے۔ غالب کے کلام میں مظہریت کے بجائے وجودیت کی گونج صاف سنائی دیتی ہے۔ اسی جدیدیت اور وجودیت کی وجہ سے کلام غالب اب تک تازہ دم رہا ہے۔ غالب کے دور اور مابعد کی شاعری تحریکوں کے زیر اثر پروان چڑھی ہے، جب کہ ان کی شاعری سے تحریکوں نے جنم لیا ہے۔
غالب کی بہتر تفہیم بیسویں صدی میں ممکن ہوئی۔ ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی کے نزدیک غالب ہمارے آخری بڑے کلاسیکی اور پہلے بڑے جدید شاعر ہیں۔ کیونکہ بیسویں صدی کا مزاج استفہام اور تجسس سے عبارت ہے، جو غالب کے کلام کی اصل پہچان ہے۔ دانیال طریر کے نزدیک اس صدی کا انتہائی اہم حوالہ ایک وحشی ریاست کا خود ساختہ کلامیہ نائن الیون ہے، جس نے معاشرے کو بے جہتی، غیر یقینی صورت حال، بھوک، جہالت، صارفیت کلچر، ہائپر ریلیٹی، تکثیرت، لامرکزیت اور بے معنویت سے دوچار کیا۔ اس صدی میں کوئی مظہر شفافیت کا حامل نہیں۔ بے انت ہنگام و انتشار کی صورت ہے، ایک بے معنی کھیل تماشا ہے، ایک سیل بلا ہے، بے دست وپا شور برپا ہے اور فرد خود سے انجان ہے۔ اس صورت حال میں غالب کی شاعری فرد کو غور و فکر پر اکسا سکتی ہے، فرد کے وجود کی معنویت کو برقرار رکھ سکتی ہے اور ایک بار پھر خوب صورت دنیا کی تخلیق کے لیے فرد کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کر سکتی ہے۔
بیضہ آسا، ننگ بال و پر ہے یہ کنج قفس
از سر نو زندگی ہو گر رہا ہو جائیے!