Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Fazal Tanha Gharshin
  4. Faiz Ki Dunya

Faiz Ki Dunya

فیض کی دنيا

فیض احمد فیض 1911 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کی۔ وہ زمانہ طالب علمی ہی میں شعر و سخن کہنے لگے تھے۔ نقش فریادی، دست صبا، میرے دل میرے مسافر، وادئی سینا اور نسخہ ہائے وفا ان کے مشہور شعری مجموعے ہیں۔ وہ غزل اور نظم دونوں اصناف سخن پر یک ساں قدرت رکھتے تھے اور اپنے عہد کے نمایاں ترقی پسند شاعر تھے۔ عمر بھر جبر و استحصال اور ظلم و استبداد کے خلاف لکھتے رہے۔ قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں اور 1984 کو وفات پاگئے۔

فیض احمد فیض نے نظم کو غزل کیا اور پیغام کی ترسیل کے ساتھ ساتھ غزل اور نظم کی ادبی حیثیت کو بھی برقرار رکھا۔ ان کے کلام میں علامتیں، فارسی رنگ اور احساس کی شدت پائی جاتی ہے۔ ترقی پسند ہونے کے باوجود فیض نے غزل کو خطابت اور نعرہ زنی سے بچایا اور غزل کی روایت کو اجتماعی شعور کے پس منظر میں پیش کیا۔ ان کی غزل کا اسلوب کسی حد تک میر تقی میر سے قریب تر ہے اور لب و لہجہ خالص کلاسیکی ہے۔

فنی لحاظ سے فیض نے روایت اور فکری لحاظ سے جدت کو اپنا شعری شعار بنالیا۔ ان کے کلام میں کشش اور اثر آفرینی بنیادی طور پر نظم اور غزل میں اعلیٰ پائے کے ادبی توازن برقرار رکھنے کی وجہ سے ہے۔ ان کی نظموں میں غلامی، جبر، جہل، ظلم اور استحصال کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ لوح و قلم، فقیہہ شہر، محتسب، واعظ، مے کدہ، حدیث دوست، نوائے مرغ، کوئے جنون، قفس، چمن، صبا، رنگ بہاراں، شیخ، زاہد، شب گزیدہ سحر، داغ داغ اجالا وغیرہ فیض کی پسندیدہ علامتیں ہیں۔ ان کی غزلوں میں آنکھیں، زلفیں، خوشبو، انتظار، التفات، دنیا، جدائی، زندگی، امید، شوق، خوابیدہ، شمع، مینا وایاغ وغیرہ جیسے الفاظ بہ کثرت استعمال ہوئے ہیں۔

فیض کے کلام کا ایک خاص معیناتی نظام ہے۔ ان کے ہاں رموز و علائم کا استعمال بڑی ہنرمندی سے کیا گیا ہے۔ وہ مجاہد کے لیے عاشق، وطن کے لیے معشوق، سامراج کے لیے رقیب، باغی کے لیے رند، سیاسی بیداری کے لیے مےخانہ، انقلاب کے لیے جنون، مصلحت کے لیے عقل، ادیب کے لیے عندلیب، نصب العین کے لیے گل، سیاسی استحصال کے لیے گل چین، جبری نظام کے لیے حبس، ظالم کے لیے صیاد، مجبور انسان کے لیے کتا، بادشاہ کے لیے آقا، پرانی روایات کے لیے رات، مستقبل کے لیے سحر اور دیگر جیسی دل چسپ علامتیں استعمال کرتا ہے۔ ان کے کلام میں رنگوں کی اپنی ایک دنیا ہے۔ ان کی غزلوں میں سرخ رنگ دلھن کے عروسی پوشاک کے لیے، زرد رنگ خزان کے لیے، سیاہ رنگ جدائی و نارسائی کے لیے اور کاسنی رنگ فراق کے لیے ہے۔ جب کہ نظموں میں سرخ رنگ مظلوموں کے خون کے لیے، زرد رنگ بھوک اور افلاس کے لیے، سیاہ رنگ احتجاج کے لیے اور کاسنی رنگ زندگی سے بے زاری کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

فیض آمریت کے شدید مخالف تھے۔ انھوں نے ایوب خان کو از راہ تفنن مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنا انتخابی نشان "پھول" کے بجائے "لہو" رکھ لیں۔ فیض عوام الناس کے شاعر تھے۔ ڈاکٹر سحر انصاری کے مطابق فیض کی مقبولیت صرف ادبی دنیا، مزدوروں، کسانوں، طلبہ اور نظریاتی حلقوں تک محدود نہ تھی، بل کہ بیوروکریسی، صنعتی دنیا اور سیف و تفنگ سے تعلق رکھنے والے حلقوں میں بھی بام عروج پر تھی۔ ڈاکٹر نزہت عباسی کے مطابق ان کی شاعری لمسی سے زیادہ مرئی اور بصری ہے۔ اسی وجہ سے اس کی پیکر تراشی میں ترفع اور حلاوت ہے۔ ڈاکٹر انور سدید کے نزدیک عاشقی فیض کے لیے عبادت اور ترقی پسندی ان کے لیے فرض کا درجہ رکھتی ہے۔

فیض کے ہاں حسن کی تخلیق صرف جمالیاتی فعل نہیں، بل کہ افادی فعل بھی ہے۔ ان کا کلام فنی معیار کے ساتھ ساتھ زندگی کے معیار پر بھی پورا پورا اترتا ہے۔ ان کی غزلیں اگر مخمور و مسرور کرتی ہیں تو ان کی نظمیں جھنجلاتی اور جھنجوڑتی ہیں۔ ان کی غزلیں اگر وصال و فراق کی لوریاں سناتی ہیں تو ان کی نظمیں ارضی معاملات سے برسرپیکار کردیتی ہیں۔ فیض زندگی کے دائرے کے دونوں نصفوں (حسن اور افادہ) کو ملا کر کارآمد اور بامقصد زندگی گزارنے کے مبلغ ہیں۔ جمالیات اور مقصدیت میں توازن برقرار رکھنے کی وجہ سے فیض اردو شعر و سخن کی دنیا میں تا ابد نمایاں رہے گا۔

Check Also

Israeli Parliman Aur Amit Halevi Se Mulaqat

By Mubashir Ali Zaidi