Communism Par Aik Sarsari Nazar
کمیونزم پر ایک سرسری نظر
چھے دنوں کی بنی کائنات میں پہلے سماوی دنیا، پھر جمادات، نباتات، آبی جانور، خشکی جانور اور آخر میں انسان وجود میں آیا ہے۔ انسان اس سرزمین پر تقریبا 30 لاکھ برس سے آباد ہے۔ لامارک اور ڈارون کے نزدیک موسم، جغرافیائی ماحول، استعمال یا ترکِ استعمال سے اجسام میں عضوی تبدیلیاں واقع ہونے اور نئی نسلوں میں وراثتاََ منتقل ہونے کی وجہ سے آج کی دنیا ابتدائی دنیا سے کافی مختلف ہے۔
حجری دور میں انسانوں نے لاکھوں برس تک ابتدائی کمیونزم کے ذریعے زندگی بسر کر لی۔ پیداوار، ذرائع پیداوار اور آلات پیدوار ان میں مشترک ہوا کرتے تھے، اور ان کی تقسیم بھی مساویانہ اور حسب ضرورت ہوا کرتی تھی۔ کمیونزم دراصل وہ اشتراکی نظام ہے جس میں پیداوار ضرورت کے مطابق تقسیم ہوتی ہے، اور اسی طرح سوشلزم وہ اشتراکی نظام ہے جس میں پیداوار جسمانی و ذہنی صلاحیت کے مطابق تقسیم ہوتی ہے۔ مارکسزم کے برعکس، جدید کمیونزم اور سوشلزم میں ذرائع پیداوار کمیونٹی یا سوسائٹی کے بجائے حکومت کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔ حالیہ دریافت شدہ قدیم قبیلوں مثلا، تاسادے، سیمانگ، پیوت، یوکوت، بلیک فٹ، نوت کا، یوروبا، بولوکی اور اسکیمو میں اب تک ابتدائی کمیونزم کا رواج ہے۔
مجموعی طور پر جب ابتدائی کمیونزم میں"تقسیم کار" کی کمی کی وجہ سے پیداوار گھٹنے لگی، تو ذاتی ملکیت اور وراثت نے جنم لیا۔ موسوی دور میں من و سلوی بھی فی کس ضروریات کے تحت مساوی ملتی تھی۔ حضرت موسی اور دیگر پیغمبران اسلام کی زیادہ تر تبلیغ ذاتی ملکیت سے جنم لینے والی خرابیوں اور جرائم کے خاتمے کے گرد گھومتی تھی۔ شکار کے زمانے میں ذاتی ملکیت کا رواج نہ تھا، جب کہ کھیتی باڑی، گلہ بانی اور آبادی میں اضافے نے ذاتی ملکیت کے تصور کو جلا بخشی۔
زمین کی ملکیت کا تصور 900 قبل مسیح میں یونان اور پہلی فوجی کمیونسٹ ریاست سپارٹا سے شروع ہوا۔ سقراط کو اشرافی کمیونزم کے خلاف اور ذاتی ملکیت کے حق میں لکھنے کی سزا ملی تھی، جب کہ افلاطون کی ری پبلک نے ایتھنز میں اشرافی کمیونزم کو لاگو کیا تھا۔ رواقیت کا بانی زینو، لاطینی شاعر ورجل اور ہسپانوی مصنف سینیکا ذاتی ملکیت کے خلاف اور اشتراکی معاشی نظام کے پرچارک تھے۔ ان کے نزدیک ظلم، لالچ، غربت، قوانین اور سزائیں ذاتی ملکیت کی پیداوار ہیں۔ حضرت عیسی کے پیروکاروں کی تعداد صرف تین سال میں ہزاروں تک کمیونزم کی حمایت ہی کی وجہ سے پہنچی اور ان کو یہودی دولت مند پیشواٶں (صدوقیوں اور فریسیوں) نے کمیونزم کی حمایت ہی کی وجہ سے مصلوب کیا۔
اشتراکی طرز معاشرت میں خرچ کم اور سہولتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ سنت اگستین کے نزدیک ذاتی ملکیت جھگڑوں، عناد، مقدمہ بازیوں اور قتال کا سبب بنتی ہے۔ عیسائی پادری اب تک اشتراکیت اور رہبانیت کی زندگی بسر کر تے آئے ہیں، اور کمیونزم کو خدا پرستی سے قریب ترین معاشی معاشرہ قرار دیتے ہیں۔ کمیونزم کی تبلیغ پر انگلستان میں جان پال کو 1381 میں پھانسی دی گئی اور چیکو سلواکیہ میں جان ہیئس کو 1415 میں آگ میں ڈالا گیا۔ مارٹن لوتھرکنگ نے سرمایہ دار قومی ریاستوں اور کلیسائی اقتدار کے خلاف ریفارمیشن کی بنیاد ڈالی۔ جو اٹلی، جرمنی، برطانیہ اور یورپ میں بہت مقبول ہوئی۔ 531 عیسوی میں اشتراکیت کے مشہور علم بردار مزدک کو نوشیروان اور قباد نے زندہ درگور کر دیا۔ علامہ اقبال نے مزدک کو اشتراکیت کی علامت اور کارل مارکس کو اشتراکیت کا امام کہا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کا آغاز یورپ میں چودھویں صدی عیسوی کے وسط میں اٹلی سے ہوا۔ یہ وہ سماجی نظام ہے جس میں آزاد مزدور طبقہ، سرمایہ دار کے ذرائع دولت آفرینی یعنی خام مال اور مشینی آلات و اوزار سے کسی فیکٹری، مل، کارخانے یا ورکشاپ میں یک جا ہو کر بازار میں فروخت ہونے والی چیزیں پیدا کرتا ہے اور سرمایہ دار کے منافع میں مسلسل اضافہ کرتا رہتا ہے۔ اس نظام کی بدولت "تقسیم کار" نے خوب رواج پایا، مثلاََ پہلے ایک شخص پوری گھڑی بناتا تھا، اب ایک شخص گھڑی کے صرف ایک پرزہ بنانے تک محدود ہوگیا ہے۔ سرمایہ داری کے اس پہلے دور کو مینوفیکچرنگ کا دور کہا جاتا ہے، جو دستکاری کی متبادل اور ترقی یافتہ شکل تھی۔ سو سال بعد اطالوی سرمایہ داری کو زیادہ نقصان امریکہ اور ہندوستان کے بحری راستوں کی دریافت نے پہنچایا۔ جدید مینوفیکچرنگ نظام سے انسان مشینوں کا غلام رہ گیا اور سرمایہ دارانہ نظام نے ملوکیت، نوابیت اور کلیسائیت کے بت گرائے۔
سر تھامس مور نے ذاتی ملکیت کے خلاف اور کمیونزم کی تائید میں یوٹوپیا لکھی۔ 1600 کی دہائی میں برطانیہ میں لیولرز اور ڈگرز نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اور طبقاتی اونچ نیچ کے خاتمے کے لیے بھرپور تحریک چلائی۔ روسو کی وجہ سے انقلاب فرانس کے بعد ملوکیت، جاگیریت اور کلیسائیت کی جگہ آزادی، مساوات اور اخوت نے لے لی۔ مارکس اور اینگلز کے ذریعے سائنسی سوشلزم کا آغاز ہوا۔ مارکس کے مطابق دنیا کی تمام ایجادات، انکشافات اور تخلیقات ذاتی ملکیت میں اضافے کی غرض سے قطعا نہیں ہوئیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کرنے والوں کے پاس کچھ نہیں ہوتا اور جو محنت نہیں کرتے ان کے پاس سب کچھ ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام ہی نے عورت کو آلہ پیداوار بنایا، جب کہ مرد اور عورت کی برابری صرف کمیونزم میں ممکن ہے۔ مارکسزم کے مطابق پیداوار، ذرائع پیداوار اور آلات پیدوار حکومت کے بجائے کمیونٹی کے سپرد ہوں اور ضرورت کے تحت مساوی تقسیم ہوں۔ مارکس نے ہندستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے لوٹ مار اور استحصال سے بھی پردہ اٹھایا۔ برطانیہ کی سائنسی ایجادات نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہندستان کو غلام بنا کر لوٹ لیا، اور ہندستان کے دیہاتی خود کفیل زرعی سماجی نظام کو شہری سرمایہ دارانہ نظام کے تابع کیا۔ ہندستان میں سامراجیت کی ابتدا یہاں سے ہوئی ہے۔
ہندستان میں زمین کی ملکیت، انگریزی تعلیم، صنعت کاری، نظام آب پاشی، رسل و رسائل کے جدید ذرائع، معدنیات کی اہمیت، ٹیکسز، درآمدات، برآمدات، زر مبادلہ اور ریلوے کا نظام وغیرہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے توسط سے ہندستان میں متعارف ہوا۔ ہندستانیوں کو جوں ہی اپنے جغرافیے کی افادیت و اہمیت کا اندازہ ہوا، تو بغاوتیں کرنے لگے جو بالآخر آزادی اور تقسیم پر منتج ہوئی۔ مگر یہ خطہ ابھی تک کمیونزم اور کیپیٹلزم کے باہمی تصادم سے متاثر رہا ہے۔
نوٹ: زیر نظر تحریر سبط حسن کی کتاب 'موسی سے مارکس تک' کا خلاصہ ہے۔