Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Yaasiat

Yaasiat

یاسیت

یاسیت، نا امیدی، اور افسردگی طاری ہونے کا نام ہے۔ دوسری طرف ہم اس کو قنوطیت پسندی بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہر وہ ذی روح جو کرہ عرض پر موجود ہے یاسیت کا شکار ہوتی ہے، وجہ مختلف ہو سکتی ہے۔

انسان بھی اس کیفیت سے مبرا نہیں ہے۔ میڈیکل سائنس یہ کہتی ہے کہ اس کیفیت میں مبتلا کرنے میں ایک ہارمون کا کردار بہت نمایاں ہے۔ اگر یہ کیفیت عارضی ہو تو مسئلہ نہیں بنتا لیکن یہ کیفیت مسلسل طاری رہے تو اس کے سنگین نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں۔

انسان کو زندگی ایک بار ملتی ہے، لیکن حالات انسان کو ایسے دوراہے پر لا کھڑا کر دیتے ہیں کہ وہ اس دنیا سے راہ فرار اختیار کرنے میں اپنی عافیت سمجھتا ہے اور اپنے ہاتھوں اپنی موت کا فیصلہ کر لیتا ہے، جسے خود کشی کہتے ہیں۔

ہمارے ہاں خود کشی کا رحجان عام ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے تو یہ سنتے تھے کہ غربت سے تنگ آ کر بندے نے نہر میں چھلانگ لگا کر موت کو گلے لگا لیا۔ ہم یہ خیال کر لیتے تھے کہ اس کو اسلامی تعلیمات کا شعور نہیں تھا۔ اس لئے اس نے ایسا قدم اٹھا لیا۔ لیکن اب پچھلے کچھ عرصہ سے ایسے واقعات رپورٹ ہوئے کہ پڑھے لکھے سنجیدہ لوگ بھی یاسیت کا شکار ہو کر زندہ رہنے کی بجائے موت کو ترجیح دے رہے ہیں۔

ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس سوال کا جواب نفسیاتی ماہرین کو ضرور سوچنا چاہئے۔ ایک جید عالم جس سے ایک زمانہ اپنے لئے دعائے خیر کرواتا تھا۔ ان کو بھی اس دکھی المیہ سے گزرنا پڑا اس سے اس مسئلہ کی سنگینی واضح ہوتی ہے۔

ایک سی ایس پی آفیسر کا واقعہ آجکل زبان زد عام ہے۔ جس نے غربت میں آنکھ کھولی اپنی محنت لگن کے بعد وہ اس مقام تک پہنچا پر خود سے انصاف نہیں کر پایا۔ یہ دو کیس ہی کافی ہیں اگر ان پر غوروفکر کیا جائے تو ماہر نفسیات نوجوان نسل کو اس یاسیت سے نکال سکتے ہیں۔

خودکشی کا فیصلہ انسان فوری نہیں کرتا جب وہ خود کو ایک بند گلی میں دیکھتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے تب وہ کر گزرتا ہے۔ اس میں بہادری یا بزدلی کا عنصر نہیں ہوتا۔ حالات اور کیفیت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔

کچھ بچے شروع سے بہت حساس طبعیت کے مالک ہوتے ہیں۔ زیادہ تر وہی خودکشی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ اس میں والدین کا رول بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ اساتذہ اور پھر معاشرہ ان سب کے تال میل سے ہم اس شرح اموات میں کمی لا سکتے ہیں۔

کہتے کہ جو ایک بار خود مرنے کی بات کرے اس کو ہلکا نہیں لینا چاہئے وہ زندگی میں ضرور کبھی نہ کبھی ایک بار کوششش ضرور کرے گا۔ اگر کبھی آپ کا جاننے والا اداس ہو مایوس ہو مرنے کی بات کرے تو فوری کسی ماہر نفسیات کے پاس لیکر جائیں یا کم از کم اس کی دلجوئی کریں۔ اس سے بات چیت بڑھائیں۔

اسلامی نقطہ نظر سے حرام موت کے بارے میں آگہی دیں۔ ہمارے علماء اکرام کو بھی چاہئے کہ اس مسئلے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اپنے خطبے میں لوگوں کی ذہن سازی کریں انہیں مضبوط بنائیں۔

نا امیدی۔ مایوسی کفر ہے۔

رب تعالی کا فرمان ہے کہ میں کسی پر اس کی استعداد سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ ہم انسان جلدی ہار مان لیتے ہیں۔ رب کی رحمت سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ جتنا ہم اسلامی تعلیمات سےدوری اختیار کرتے ہیں اور نیچر سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ مصائب، الم، غم اور دکھوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم بہت زیادہ توقعات اور خود ساختہ خواب بن لیتے ہیں۔ جب وہ سب پورے نہیں ہوتے تب بھی ہم مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں چلے جاتے ہیں۔ ان سب کا علاج اس میں ہے کہ بیشک دلوں کااطمینان رب کے ذکر میں پوشیدہ ہے۔ جتنا ہم رب پر ایمان مضبوط رکھیں گےیقینا دنیاوی پریشانیوں کا مقابلہ بہ احسن نبھا پائیں گے۔

ایک انسان خودکشی کرکے اس دنیا سے تو چلا جاتا ہے پر پیچھے اس کے لواحقین کو جو بھگتنا پڑتا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو صبر دے ایمان کی مضبوطی عطا کرے۔ اور ہمارا خاتمہ ایمان بالخیر پر ہو۔

Check Also

Science Aur Mazhab

By Muhammad Saeed Arshad