Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Sochne Ka Maqam

Sochne Ka Maqam

سوچنے کا مقام

ایک عام جملہ جو ہر غلطی کے بعد انسان بول دیتا ہےکہ "میں کوئی فرشتہ ہوں انسان ہوں غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے" ہم یہ کہہ کر یا سوچ کر خود کو بری الزمہ سمجھ لیتے ہیں اور یہی سے ہم اپنے معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

آج ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں اس کو ہم مثالی معاشرہ ہرگز نہیں کہہ سکتے۔ ہمارے آباؤ اجداد جن کی درسی تعلیم واجبی یا ان پڑھ تھے۔ لیکن اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت اخلاقی اقدار، رہن سہن، معاشی معاشرتی معاملات پر گرفت بہت مضبوط رکھتے تھے۔ یہی وجہ کہ جو لوگ آج آپ کو کامیابی کے اونچے درجے پر نظر آرہے ہیں ان کے ماضی پر نظر دوڑائیں تو زیادہ تر کے والدین کی معاشی زندگی اور درسی تعلیم نچلی سطح پر نظر آئے گی۔ لیکن ان والدین کی عظمت کو سلام جنہوں نے اپنے اپنے ہیرے کو اچھے سے تراچھا جو آج بھی اپنی پوری چمک اور آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی روشنی سے منور ہیں۔

صد افسوس ہم اپنی تیسری نسل کی آبیاری صحیح سے نہیں کر پا رہے۔ ماضی بعید میں والدین اور معلم بچے کی شخصیت نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ لیکن اب تین کردار ایسے ہیں جن پر نسل کی تربیت کا انحصار کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے والدین، اساتذہ، اور میڈیا اگر بنظر غور جائزہ لیں تو یہ تگڑی اپنا اپنا کردار صحیح سے ادا نہیں کر پا رہی ہے۔

یہ جو معاشرے میں ایک نفسا نفسی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ہمیں ان وجوہات کو دیکھنا ہوگا۔ کہ ہم اپنی نسل میں بگاڑ کہاں پیدا کر رہے ہیں۔ بنیادی چیزیں بنیادی اصول ان سے ہم انحراف کر رہے ہیں۔ بچوں میں بد تمیزی، بڑوں کی عزت نہ کرنا، گالی گلوچ، صلہ رحمی، وقت کی قدر نہ کرنا، اسلام کی بنیادی تعلیم سے دوری، دوسروں کے حقوق کا خیال نہ رکھنا، وغیرہ۔ اس کے ساتھ ساتھ عادت بد میں مبتلا ہو جانا، کسی بری علت کا شکار ہو جانا جیسے منشیات کا استعمال وغیرہ۔

یہ سب وہ بنیادی معاملات ہیں جن سے ہم نے صرف نظر کیا اور آج ہم ایک بہت ہی کٹھن اور گنجلک معاشرے میں سسک سسک کے جی رہے ہیں۔

ہمیں ادراک کرنا ہوگا کہ ہم نے ایک اچھی نسل تیار کرنی ہےجو ہمارے معاشرتی اقدار کی امین ہو بنیادی تعلیمی نظام میں ہمیں بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ جاپان کا بنیادی تعلیمی نظام ہمارے لئے سودمند ہے۔ کسی نے کیا خوبصورت جملہ بولا تھا کہ "تم مجھے اچھے استاد مہیا کر دو میں تم کو اچھی قوم دے دوں گا"۔ یہ وہ نسخہ کیمیاء ہے جس پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جو لوگ تعلیمی نظام کو کاروبار سمجھتے ہیں ان سے آپ کو اچھے کی امید نہیں کرنی چاہئے۔

والدین کو بھی چاہئے کہ اپنے بچوں کو ان کاروباری بیوپاریوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔ اپنے بچوں کو پورا وقت دیں زندگی کے نشیب و فراز سمجھائیں۔ اپنی نسل کی تربیت اس نہج پر کریں جیسے خود اس کی اس کے والدین نے ناگفتہ بہ حالت میں کی اور ان کو معاشرے کا مفید شہری بنایا۔ ہم اپنے بچوں کو نمبروں کی نہ ختم ہونے والی دوڑ میں شامل کر رہے ہیں۔ بچہ بھی اس دباؤ کو دیکھتے ہوئے ہر وہ جائز نا جائز زرائع استعمال کرکے اچھے نمبر تو لے لیتا ہے پر ہم اس سے اس کی اصل رعنائی سے محروم ہو رہے ہیں۔ اس میں احساس نام کی چیز باقی نہیں ہوتی کیونکہ وہ کسی دوسرے کی ناحق تلفی کرکے وہاں تک پہنچتاہے۔

جو بچے اچھے نمبر نہیں لے پاتے وہ یا تو افسردگی، ناکامی کی اتھاہ گہرائیوں میں چلے جاتے ہیں نشہ یا پھر معاشرے سے انتقام لینا شروع کر دیتے ہیں۔ یوں معاشرہ ایک جنگل نظیر بن جاتا ہے۔ فی زمانہ میڈیا کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ ان کو چاہئے کے معاشرے کی اصلاح پر توجہ دیں، حقوق العباد پرمبنی مواد شائع یا نشر کریں۔ ہم اپنی نسل کو شتر بہ مہار نہیں چھوڑ سکتے سب کو اپنی اپنی جگہ پر رہ کر اپنے معاشرے خاص کر نوجوان نسل کی تربیت اس انداز سے کرنی چاہئے کہ وہ معاشرے میں ایک باعزت اور مفید شہری بن سکے اس کے لئے ہمیں جو بھی قیت چکانی پڑے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔

ورنہ علامہ اقبال جو فرما گئے ہیں اس کے لئے تیار رہیں" کہ تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں"۔

اپنے بچوں کی اچھی عملی تربیت کرنا بھی صدقہ جاریہ ہے اور والدین کے لئے فرض عین بھی ہے اور موجودہ وقت کی ضرورت بھی۔ اصلاح معاشرہ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اچھا بیج ہی آگے چل کر اچھی فصل کے حصول کا ذریعہ بنتاہے۔ ہم جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے یہی قانون فطرت ہے۔ اس سے روگردانی نہیں ہو سکتی۔

Check Also

Aaj Tum Yad Be Hisab Aaye

By Ilyas Kabeer