Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Insaf Mazloom Ki Dehleez Par

Insaf Mazloom Ki Dehleez Par

انصاف مظلوم کی دہلیز پر

الیکشن کی آمد آمد ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے منشور بنائے جا رہے ہیں۔ جس سیاسی جماعت کا منشور انسانی امنگوں کی ترجمانی کر رہا ہوگا۔ اتنا ہی اس کا سیاسی چورن بکے گا۔ تادم تحریر کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور میں عدل انصاف کے قوانین میں تبدیلی، یا انصاف مظلوم کی دہلیز پر جیسے خوش کن وعدے منشور میں پڑھنے کو نہیں ملے۔

حیرانگی اس بات پر کہ تمام ہی سیاسی شخصیات کو انصاف کے حصول کے لئے خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے۔ جونہی اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوتے ہیں۔ عدلیہ میں انقلابی تبدیلیوں سے گریز کرتے ہیں۔ بلکہ مخالف سیاسی شخصیات کو تختہ مشق بناتے ہیں۔ جن سے وہ خود گزر چکے ہوتے ہیں۔

کوئی بھی سیاسی جماعت عدلیہ کے قوانین میں تبدیلیوں پر سوچ بچار نہیں کرتی اور نہ ہی وہ اس بھاری پتھر کو چوم کر الگ کرنا چاہتی ہے۔ عدلیہ سے منسلک لوگ بھی پتہ نہیں کیوں اس نظام کو بدلنا نہیں چاہتے۔

نوجوان نسل جو کہ سوشل میڈیا سے بہت زیادہ متاثر ہے۔ اسی کے زیر اثر وہ مستقبل سے مایوس خاص کر حالیہ عدلیہ کے کچھ فیصلوں کو نا پسندیدگی سے دیکھتی ہے۔ جس وجہ سے وہ ملک سے فرار چاہتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

ملک میں نچلی سطح پر کم از کم انصاف کے معیار کو قابل رشک بنانے کی ضرورت ہے اور تیز تر انصاف مظلوم کی دہلیز پر حکومت کی بنیادی ذمہ داری میں شامل ہے۔

ہمیں کسی ایسے ملک کی جوڈیشری سسٹم پر غور کرنا چاہئے جو ہمارے معاشرتی نظام سے مطابقت رکھتا ہو۔ اگر ہم نچلی سطح کی عدالتوں میں موجود کیسز کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ بہت سے کیسز فوری نپٹائے جا سکتے تھے لیکن قوانین کی بھرمار کی وجہ سے مخالف فریق کو رگڑا دینے کے لئے لمبے عرصے تک کھینچا جاتا ہے۔ دادا کے دور کے کیسز پوتے کو نپٹانے پڑتے ہیں، جو کہ بلا وجہ چھوٹی عدالتوں پر بوجھ کا باعث بن جاتے ہیں۔

میری نظر میں سوائے سنگین جرم کے باقی جتنے بھی کیسز ہوں ان کو مقامی سطح پر پنچائیت سسٹم کے تحت نپٹائے جائیں۔ مقامی مسجد کا امام اور محلے کے امن کمیٹی کے ممبر اس پنچائیت کا حصہ ہوں۔ پنچائیت کمیٹی کے فیصلے کے بعد اگر کوئی فریق مطمئن نہ ہو تو اس کو حق ہے کہ وہ عدالت سے رجوع کر لے۔ لیکن پولیس اور عدالت اس پنچائیت کے فیصلے کو بھی اون کرے۔ اس طرح سے عدالتوں پر بیجا دباؤ نہیں آئے گا۔ عوام کو بھی گھر کی دہلیز پر انصاف ملے گا۔

پولیس ایف آئی آر کے بعد کیس کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پنچائیت کی طرف ریفر کر دے اور وقت دے کہ اس کیس کو اس وقت کے اندر اندر حل کریں۔ جمعہ کی نماز کے بعد مسجد کے اندر ہی پنچائیت اس کیس کو سنے اور دونوں فریقین کو مطمئن کرے۔

اگر ہم نچلی سطح پر انصاف کے نظام کو بہتر کر لیں تب بھی معاشرے میں بہتری آ جائے گی۔ یہ جو لوگوں کا اب نظام انصاف سے اعتماد اٹھ گیا ہے وہ بحال ہونا شروع ہو جائے گا۔

جس نے سیاسی چورن بیچنا ہے وہ اگر بنیادی نظام انصاف کا نیا ڈھانچہ عوام کے سامنے لے آئے تو امید واثق ہے کہ وہ سیاسی جماعت لوگوں کے دلوں میں گھر کر جائے گی۔ عوام خود کو بے سروپا بے دست محسوس کر رہی ہے۔ خود کو دھوپ میں کھڑا محسوس کر رہی ہے۔ کوئی تو اس کے لئے چھاؤں یا سائباں کا انتظام کر دے۔ آخر عوام کب تک برداشت کرے گی؟

انصاف تیز تر اور مظلوم کی دہلیز پر پہنچانا اب نا گزیر ہو چکا ہے اور یہ تمام سیاسی جماعتوں کے لئے ایک چیلنج بھی۔ میں نے اپنے تئیں ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے بقول شاعر

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی

ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا

Check Also

Mukalmat Zindagi Badal Dene Wali Kitab

By Abid Hashmi