Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Ifreet

Ifreet

عفریت

ہمارے ملک کے تمام اداروں کی زبوں حالی طشت ازبام ہو چکی ہے۔ انگریز جتنے بھی ادارے بنا کر گئے تھے۔ ان میں کام کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم تھی۔ چیک اینڈ بیلنس کا نظام مثالی تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے اپنوں نے اپنے ہاتھوں ان اداروں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ ریلوے ہو، پی آئی اے ہو، سٹیل مل ہو یا محکمہ صحت کا کوئی ہسپتال غرض کہ اپنوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں رہ پائے۔ حد سے زیادہ افرادی قوت اور کہیں میرٹ کا استحصال کرکے بندر بانٹ کرکے نوکریاں من پسند افراد کو دی گئی۔ گورنمنٹ کے سب ادارے یا سیمی گورنمنٹ کے ادارے سب جمود کا شکار ہو چکے ہیں۔

ایک ہفتہ پہلے سوئی نادرن گیس کے مرکزی دفتر کسی کام کے سلسلے میں جانا پڑا۔ وہاں کا جو دفتری ماحول دیکھا اور ملازمین کی موج ظفر دیکھی سب خوش گپیوں میں مصروف ہم صبح صبح پہنچ گئے تھے تو ناشتہ کا دور چل رہا تھا۔ جس کاؤنٹر پر بھی گئے کسی نے بھی کام کو سنجیدہ نہیں لیا۔ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ہماری موجودگی ان کو ناگوار گزری ہے اور ہر کوئی اس کیس سے جان چھڑا کر دوسرے کے گلے ڈالنا چاہتا ہے۔

اب ٹیکنالوجی کا دور ہے، ابھی بھی وہی فائلوں کا پیٹ بھرا جا رہا ہے۔ اگر تمام کام ون ونڈو کی طرز پر کر دیا جائے تو یہ جو ادارے کو ہر سال اربوں روپے کے خسارے کا سامنا ہے اور آج کی ٹی وی کی خبر کے مطابق گیس کے بلوں میں ایک بار پھر اضافہ نا گزیر ہو چکا ہے۔ ملازمین کا بوجھ کم کر دیا جائے تو کافی ریلیف ممکن ہے۔ سیاسی حضرات نے ووٹ بینک بنانے کے لئے بے تحاشہ ملازمین بھرتی کئے جن کا خمیازہ عام عوام بھگت رہی ہے۔ اس ادارے میں ڈاؤن سائزنگ بہت ضروری ہے۔ تنخوائیں بہت بھاری کم ہیں، لیکن عملہ اپنی تنخواہ کے ساتھ انصاف نہیں کر رہا۔ ٹیکنیکل آپریشنل فیلڈ سٹاف کی کمی ہے وہ ڈیلی ویجز ملازمین رکھ کر ڈنگ ٹپاؤ سے کام چلایا جا رہا ہے۔

ایک سوئی نادرن کمپنی کے ریٹائرڈ ملازم نے خود بتایا کہ وہ مرد مومن مرد حق کے حکم پر اس محکمہ میں بھرتی ہوا جب کہ وہ اپنا نام بھی لکھنے سے قاصر تھا اور ساری ملازمت اس نے ایسے ہی گزار دی۔ اس پر نوازش کی خاص وجہ کیا تھی کہ اس کا باپ گورنر ہاؤس میں ویٹر تھا۔ مرد مومن مرد حق نے اس ویٹر کی خواہش پر اس کی تعیناتی کروا دی۔ یہ صرف ایک دیگ کا دانہ تھا۔ ایسا ہی واقعہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں کچھ لوگ بھرتی کئے گئے جیالے کسی جلسے کے لئے آئے تھے حادثہ ہوا تو ان کے لواحقین کو اس محکمے میں کھپا دیا۔ جب اس طرح لوگ بھرتی کئے جائیں گے تو ادارے کیسے ڈلیور کر سکتے ہیں۔

جب آپ کسی بھی عمارت کی پہلی اینٹ ترچھی رکھے گے تو عمارت کبھی بھی سیدھی نہیں بن سکتی ہم پتہ نہیں کیوں اس قانون فطرت سے رو گردانی کر جاتے ہیں۔ ہم جب اس دفتر میں دھکے کھا رہے تھے تو ایک آفیسر کی زبان سے یہ بھی سننے کو ملا کہ جیسے گیس کے بل آرہے ہیں لوگوں نے گیس میٹر اتار کر سروں میں مارنے کے لئے پہنچ جانا ہے۔

لوگ ان سردیوں میں گیس بل کے ہاتھوں بہت پریشان ہوئے ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ میٹر بل کی تفصیل عام بندہ نہیں سمجھ سکتا اس کے لئے یا بندہ ارسطو ہو یا وہ کسی چارٹڈ اکاؤنٹنٹ کی خدمات حاصل کرے صارف کا حق بنتا ہے کہ اس کو علم ہو کہ جو وہ بل ادا کر رہا ہے وہ صیح ہے۔ اس میں اتنی گنجل گھیریاں اور ہندسوں کا گورکھ دہندہ ہے کہ بندہ چکرا کے رہ جاتا ہے۔ ایسا ہی حال بجلی کے بلوں میں بھی ہے کہ ٹیکسز بے شمار مستزاد یہ کہ پچھلے چھ ماہ کے فیول ٹیکس ایڈجسٹمنٹ فلاں فلاں اب کیسے سمجھے خداکرے کوئی والا معاملہ ہے۔

تقریبا پورے لاہور میں گیس کے مسائل سر اٹھا رہے ہیں۔ زیر زمین گیس پائپ لائن اپنی معیاد پوری کر چکی ہیں۔ یا پھر آبادی کے دباؤ کے پیش نظر گیس پریشر کے مسائل سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ جگہ جگہ سے سیوریج کا پانی ان پائپ لائنوں میں داخل ہو چکا ہے۔ اداروں کی آپس میں کوارڈی نیشن باہمی تال میل کے فقدان کی وجہ سے واسا اپنا کام کئے جا رہا ہے ان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ حفاظتی تدابیر کیا اختیار کرنی ہیں۔ پورا لاہور کھدائی کیا جا چکا ہے۔

اگر کوئی صارف کسی وجہ سے دانستہ یا نا دانستہ ان کے ہتھے چڑھ جائے تو وہ اپنے ادارے کے خسارے کا ذمہ دار اسی ایک کو ہی سمجھا جاتا ہے اور فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قانون کا سہارا لیتے ہوئے لاکھوں کا ڈکٹیشن بل ڈال دیا جاتا ہے۔ صارف بیچارہ رل جاتا ہے اس کی شنوائی نہیں ہوتی یہی اس ملک کا المیہ ہے ریاست تو ماں جایا کی طرح ہوتی ہےجس دن عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھنا چھوڑ دیا گیا ریاست نےان کی عزت نفس کا خیال رکھنا شروع کر دیا تو ملک ترقی کی منزل طے کر لے گا نہیں تو ہم دائروں میں سفر کرتے رہیں گے اور ایسی ہی عفریتوں کا سامنا جاری و ساری رہے گا۔

Check Also

Batti On Karen

By Arif Anis Malik