Friday, 18 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Doodh Ka Aalmi Din

Doodh Ka Aalmi Din

دودھ کا عالمی دن

عالمی دن منانے کا مقصد اس پروڈکٹ کی اہمیت اور اس میں پیدا شدہ رکاوٹوں کو دور کرنا یا اجاگر کرنا مقصود ہوتا ہے۔ ہر سال یکم جون کو دودھ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد عالمی خوراک کے نظام میں ڈیری کے اہم کردار کو اجاگر کرنا جو کہ دنیا کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو سماجی، معاشی اورغذائی فوائد فراہم کرتا ہے۔ اس سال اس پیغام کے ساتھ یہ عالمی دن منایا جا رہا کہ ڈیری کو غذائیت کی فراہمی میں ایک اہم کردار بنانے پر توجہ دی جائے گی۔

بلاشبہ ہم دنیا کے چار بڑے ممالک میں شمار ہوتے ہیں جہاں دودھ کی پیداوار زیادہ ہے بہ نسبت دوسرے ممالک کے جو کہ خوش آئند ہے۔

زراعت کے بعد دوسرا بڑا شعبہ ڈیری کا ہے۔ اگر ہم اس پر مزید کام کریں جو رکاوٹیں ہیں ان کو دور کریں تو کوئی شبہ نہیں کہ ہم دنیا میں دودھ کی پیدوار کے لحاظ سے اول پوزیشن پر آ جائیں۔

اب بھی ہم جس پوزیشن پر ہیں اس میں ڈیری ڈوویلپمنٹ کا اتنا رول نہیں ہے جتنا کہ ہونا چاہئے۔ ہمارے ملک میں ڈیری کے حوالے سے بہت پوٹینشل ہے۔ عام فارمر کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر گورنمنٹ تھوڑا سا تعاون کرے تو ہم اس شعبے سے ملک کی تقدیر بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ جو نوجوان ڈنکی لگا کر جان کو ہتھیلی پر رکھ کر روزگار کمانے دوسرے ممالک جا رہے ہیں۔ ان کے انہی پیسوں سے ایک اچھا سیٹ آپ ڈیری کا بن سکتا ہے۔ جتنا وہ پردیس میں رہ کر روزی کماتے ادھر بہتر اور باعزت روزگار کما سکتے ہیں۔

کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم دودھ کے حوالے سے خود کفیل ہونے کے باوجود اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں زہر پلا رہے ہیں۔ دوسرا نقصان جانے انجانے میں ہارمونل انجکشن کا بے دریغ استعمال ہے۔ جس کے مضر اثرات ہماری بچیوں پر نمایاں ہو رہے ہیں۔ ہم اپنی نسل کی تباہی اپنے ہاتھ سے کر رہے ہیں۔

ہمیں سوچنا ہوگا بس جلد امیر ہونے کے چکر میں اپنی قبر اپنے ہاتھ سے کھود رہے ہیں۔ اگر دودھ کے حوالے سے فارمر کے اخراجات پر نظر دوڑائیں تو وہ خسارے میں جا رہا ہے۔

دودھ کی قیمت فارمر کو لاگت کے حساب سے نہیں مل رہی۔ جو مڈل مین ہے وہ فائدہ میں ہے۔ بڑے شہروں میں دودھ کی اچھی قیمت مل رہی لیکن دور دراز علاقوں میں دودھ ایک سو دس روپیہ تک بک رہا ہے جو کہ انتہائی کم ہے۔ ونڈہ، سائیلج، میڈیکل اخراجات، لیبر بجلی کے بل ان سب کو جمع کیا جائے تو لاگت ایک سو پچاس کے قریب بنتی ہے۔ اس لئے میری گورنمنٹ اور ان اداروں سے درخواست ہے جو دودھ اکٹھا کرتے ہیں کہ دودھ کی کم از کم ایک سو ساٹھ روپیہ فی لٹر قیمت مقرر کی جائے تا کہ فارمر پوری دلجمعی سے اپنے کام کو سر انجام دے۔ آنے والے فارمرز کی بھی حوصلہ افزائی ہو۔

ہمارا یہ تھیم ہونا چاہئے کہ ہم نے دودھ کی پیداوار میں اول پوزیشن پر آنا ہے۔ اس کے لئے چیدہ چیدہ اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

ڈیری فارمرز کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں، ٹیکس سے چھوٹ اور سرخ فیتے سے نجات، ویٹرنری میڈیسن پر چیک قیمتوں کے تعین کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل، ڈیری ڈوویلپمنٹ کو مزید فعال بنانا مردے گھوڑے کو زندہ کرنا بہت ضروری وہ لوگ اس ادارے میں لئے جائیں جو حقیقت میں ملک کی تقدیر بدلنے میں یقین رکھتے ہوں۔

جینٹیک پر مزید کام جس میں اچھے سیمن اور اچھے ایمبریو کی تیاری نا گزیر ہے، فارمرز کی جدید سائنسی بنیادوں پر ٹریننگ، ان ممالک کے وزٹ آرگنائیز کئے جائیں جو ڈیری پروڈکٹ میں سب سے آگے ہیں جیسا کہ نیوزی لینڈ وغیرہ۔

نچلی سطح پر جانوروں کی فراہمی حکومتی تعاون سے اگرچہ (کٹا پال سکیم پر جگ ہنسائی کی جاتی ہے) پر یہ حقیقت ہے کہ اگر ڈیری میں انقلاب لانا ہے تو نچلی سطح سے ہی ممکن ہے۔

ڈیری میں استعمال ہونے والی چیزوں پر ٹیکس ختم کریں، باہر سے امپورٹ کرنے کی اجازت اور آسانیاں پیدا کی جائیں، سیمن امپورٹ کرنے میں آسانی پیدا کی جائے۔ ضلع اور تحصیل کی سطح پر دودھ کی پیداوار اور جانوروں کے مقابلہ کا اہتمام لازمی کیا جائے تا کہ نئے لوگوں میں شوق بیدار ہو۔

دودھ سے بننے والی پروڈکٹ جن کی دوسرے ممالک میں مانگ ہو خود کو اس لیول تک لے کے جائیں۔ جیسا کہ نیوزی لینڈ کا پوری دنیا میں دودھ پروڈکٹ کے حوالے سے نام ہے۔ ہم بھی یہ کر سکتے ہیں بات صرف نیت کی ہے۔

ان تمام باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ ڈیری فارمر کو اس کا جائز حق دیا جائے اس کو دودھ فی لٹر مناسب قیمت دی جائے اگر ہم واقعی ڈیری ڈوویلپمنٹ میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو پہلا پیرا میٹر فارمر کو دودھ کی مناسب قیمت دینا اولین ترجیح ہونا چاہئے۔

Check Also

Elfi

By Azhar Hussain Bhatti