Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Chupa Dushman

Chupa Dushman

چھپا دشمن

کچھ روز پہلے ایک رپورٹ نظر سے گزری جس کے نتائج دیکھ کر ہوش ہوا ہو گئے۔ اس اخباری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریبا ہر سال 25 ہزار ایڈز کے نئے مریض تشخیص ہو رہے ہیں جو کہ واقعی ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پنجاب کے ضلع فیصل آباد، چنیوٹ، جھنگ، ساہیوال، ننکانہ صاحب ایڈز سے زیادہ متاثر ہیں۔ اسی طرح صوبہ بلوچستان میں بھی کوئٹہ سمیت چھ اضلاع کو ایڈز کے حوالے سے حساس ترین قرار دیا گیا ہے۔

خیبرپختونخواہ میں سات ہزار سے زائد مریض رپورٹ ہو چکے ہیں۔ یہ وہ تعداد بتائی گئی ہے جو کہ ریکارڈ پر ہے۔ صوبہ سندھ میں لاڑکانہ سب سے زیادہ متاثر شمار کیا جا رہا ہے۔ جو کہ ایک بہت پرانی سیاسی پارٹی کے وارثین کا آبائی علاقہ ہے۔ ایڈز سے متاثرہ لوگوں کی مجموعی تعداد وہ تقریبا دولاکھ دس ہزار سے زائد ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ہر سال یکم دسمبر کو ایڈز کا عالمی دن منا کر ستو پی کر سو جائیں یا ہمیں اس موذی مرض کے خلاف سینہ سپر ہو جائیں۔ دو تین دہائی پہلے اس مرض کے بارے میں پوری دنیا میں ایک خوف طاری تھا۔ کیونکہ اس وقت یہ ایک لا علاج مرض تھا تو خوف ایک فطری عمل تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس مرض کی سنگینی قائم دائم رہنے کے باوجود اس مرض کی آگہی میں کمی آتی گئی۔

دوسرے جراثیمی امراض ھیپا ٹائٹس اور کرونا وغیرہ کی چھاپ گہری ہوتی گئی اس ایڈز کے مرض پر میڈیا کی حد تک گرفت کمزور پڑھتی گئی۔ حالانکہ کچھ این جی اوز ابھی بھی صحت کے میدان میں اس خطرناک بیماری سے بچاؤ کے لئے کام کر رہی ہیں۔ جسے قدر کی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ پنجاب کے اضلاع فیصل آباد کو چھوڑ کر باقی سب مین سٹریم سے ذرا ہٹ کر واقع ہیں۔ ان اضلاع میں اس مرض کی موجودگی اور بڈھوتری اس امر کی غمازی کر رہی ہے کہ لوگوں میں اس مرض کی سنگینی کا احساس نہیں ہے۔ یہ مرض زیادہ تر کیسز میں جنسی اختلاط سے جنم لیتا ہے۔

یہ ضروری نہیں کہ ہر کوئی جو اس مرض میں مبتلا ہے اس سے جانے انجانے میں کچھ گناہ سر زد ہو ا ہو یہ متھ بہت خطرناک ہے جو کہ بہت زیادہ سماجی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ اس مرض کے عوامل میں نائی کے شیو کرنے والا اوزار، اتائی کی طرف سے بیجا ٹیکہ جات کا استعمال اور سوئی کا بار بار استعمال۔ مختلف نام نہاد جراح، خون کی غیر شفاف منتقلی، منشیات کے عادی افراد کا نشہ کے انجکشن کا استعمال میاں بیوی میں سے کسی ایک کا ایچ آئی وی مثبت ہونا اور بچوں کی افزائش وغیرہ کرنا بھی ایڈز کے مرض میں اضافہ کا موجب بن رہے ہیں۔

ایک وقت تھا جب ٹی بی ایک لاعلاج مرض تھا لوگ اپنے پیاروں کو اپنے ہاتھوں ایک الگ جگہ مرنے کے لئے چھوڑ دیتے تھے۔ جب یہ تشخیص ہو جاتی تھی کہ مرض لاحق ہوگئی ہے تو لوگ معاشرتی تعلق توڑ لیتے تھے۔ اب ٹی بی کے مرض کے حوالے سے اس طرز کا خوف نہیں پایا جاتا ویسے بھی اب اس مرض کے خلاف علاج دریافت ہو چکا ہے۔

ایڈز کے حوالے سے بھی سننے میں ہے کہ کافی ادویات اب موجود ہیں جو اس مرض کی شدت کو کم کرنے میں معاون ہیں۔ اس مرض میں چونکہ قوت مدافعتی نظام بری طرح متاثر ہوتا ہے جس سے دوسرے امراض جلدی حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ من حیث القوم ہمیں ایڈز کی مرض کی سنگینی کو سمجھنا چاہئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر اس مرض کی آگہی اور اس مرض سے بچاؤ کی تدابیر پر عمل کرنا چاہئے۔ خدارا اگر کوئی مریض ریکارڈ پر آجائے تو اس سے سماجی میل جول سے کنارہ کشی نہیں کرنا چاہئے اس کی کردار کشی نہیں کرنا چاہئے اس کو صرف ایک مخصوص گناہ کا باسی نہیں سمجھنا چاہئے۔ اس کے علاج کے لئے کوئی کسر اٹھا کر نہیں رکھنا چاہئے۔

خون کی منتقلی میں شفافیت اور ایچ آئی وی ٹیسٹ کو لازم و ملزوم ہونا چاہئے۔ شادی سے پہلے بھی اس مرض کے ٹیسٹ کو یقینی بنانا چاہئے۔ بنیادی سطح پر ہیلتھ ورکرز کو اس مرض سے روشناس کروایا جائے جو کہ بعد میں وہ لوگوں کو اس مرض سے بچاؤ کی تعلیم دیں۔ ایک وقت تھا کہ یہ مرض صرف ایسے ممالک میں پایا جاتا تھا جہاں جوڑوں کا اختلاط عام تھا۔ اب یہ مرض پوری دنیا میں عام ہو چکا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کے تعلیمی نصاب میں مسجد کے منمبر سے لوگوں کو اس مرض سے بچاؤ کی آگہی مہم جاری وساری رہے۔ طہارت اور پاکیزگی پر ہمارا مذہب بہت زور دیتا ہے۔ اس ایک طریقہ پر عمل کرکے ہم اپنی نسلوں کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ جب تک ہم اس چھپے دشمن کو پہچان نہیں لیں گے اس مرض سے چھٹکارا ممکن نہیں۔

Check Also

Saudi Arabia Mein Anar Ki Kasht

By Mansoor Nadeem