Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Bahar Ki Hawaen Kuch Keh Rahi Hain

Bahar Ki Hawaen Kuch Keh Rahi Hain

بہار کی ہوائیں کچھ کہہ رہی ہیں

قدرت بلاشبہ ہم پر بہت مہربان ہے۔ ہمارا خطہ زرخیز ہے۔ سارے موسم اس میں پائے جاتے ہیں۔ سمندر، دریا، پہاڑ، ریگستان، گرم ترین، سرد ترین موسم۔ جیسا کہ ملتان جہاں شدید گرمی پڑتی ہے تھوڑا سا آگے فورٹ منرو ایک ایسا مقام جہاں ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔

پر سوچنے کا مقام کہ ہم دنیا کو اپنی کوئی پروڈکٹ نہ دیکھا رہے ہیں۔ نہ ہی سیل کرنے کے لئے کوئی تگ ودو۔ یہی وجہ کہ ہم سیاحت سے کوسوں دور ہیں۔ ایسے ممالک جن کے پاس یہ سب اسباب بھی نہیں ہیں پھر بھی انہوں نے سیاحت انڈسٹری سے اپنے ملک کو زندہ رکھا ہے۔

کیا وجہ ہم دنیا میں خود کو منوا نہیں رہے؟

اگر صرف زراعت کے ساتھ ساتھ ہم سیاحت کو ایک انڈسٹری کی شکل میں متعارف کروا دیں۔ سرخ فیتے سے آزادی دلا دیں۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم دس سال میں ملک کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ چند معاملات پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔

ماضی میں موسم بہار میں ایک تہوار بسنت کے نام سے منایا جاتا تھا۔ بلا شبہ عیدین کے تہوار کے بعد ہمارے ملک میں یہ تہوار پوری شدومد سے منایا جاتا تھا۔ چند ناعاقبت اندیش لوگوں کے ہاتھوں یہ تہوار برباد ہوگیا۔ پوری دنیا سے لوگ یہ تہوار منانے کے لئے پاکستان آنے لگ گئے تھے۔ ایک پوری انڈسٹری بن گئی تھی۔ ہوٹل انڈسٹری پروان چڑھ رہی تھی۔ کتنے گھروں کا چولہا اس انڈسٹری کے توسط سے جل رہا تھا۔ اس سے بڑھ کر معاشرے میں باہمی میل جول، دعوت و طعام۔ ہلا گلا۔ اس گھٹن زدہ معاشرے میں تازہ آکسیجن کا جھونکا محسوس ہوتا تھا۔

صرف ایک دھاتی تار نے سب الٹ پلٹ کے رکھ دیا۔ بہت اموات یہ دھاتی تار نگل گئی۔ روایتی بیورو کریسی نے یک جنبش قلم اس تہوار پر پابندی لگوا دی یہی پر بس نہیں کیا گیا قانون سازی بھی کروا دی گئی۔

ہمارا دشمن ہمسایہ ملک ہمارے اس تہوار سے ناخوش تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ہماری اکانومی گروتھ کرے اور نہ وہ چاہتا تھا کہ دنیا میں ہمارے ملک کا سوفٹ امیج بنے۔ جس طرح کرکٹ کو بدنام کیا گیا۔ دنیا کو ہمارا چہرہ دہشت گرد بنا کر پیش کیا۔ یہ سب ان کی پالیسی کا حصہ تھا۔ ہماری بیوروکریسی، ہمارے نمائندوں نے جانے یا انجانے میں پتنگ بازی یا بسنت پر پابندی لگا کر ایک طرح سے دشمن ملک کی خواہشات کی تکمیل میں اپنا حصہ ڈالا۔

ہمارے ہاں چونکہ مذہبی اثر و رسوخ زیادہ ہے ہم اس بسنت کو بھی اسی مخصوص عینک سے دیکھتے رہے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم اس کھیل اس تہوار کے نئے سرے سے قوانین متعارف کرواتے اس کو بہتر شکل میں لے کر آتے ہم نے اس کو مکمل بند کرنے میں عافیت سمجھی۔ سب سے آسان حل یہی تھا جو اپنایا گیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم اپنے ملک کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوتے اس کے اچھے برے پہلو دیکھتے اس کے مباحثے کروائے جاتے۔ سروے کروائے جاتے لوگوں کی رائے لی جاتی تب زیادہ بہتر ہوتا۔

کوئی بھی کھیل انسانی جان سے قیمتی نہیں ہو سکتا اس پر کوئی دو آراء نہیں ہے۔

اگر صرف دھاتی تار سے ہوئی موت اس کھیل یا تہوار کی بندش کی وجہ ہے تو اس کا سب سےآسان حل موٹر سائیکل بنانے والی کمپنیوں کے ڈائزین میں ایک چھوٹی سی تبدیلی سے کیا جا سکتا ہے۔ اور ایک قانون کے ساتھ کہ روڈ پر جو بھی موٹر سائیکل آئے گی اس کے آگے ایک مخصوص لمبائی تک کا لوہے کا راڈ نصب کرنا ضروری ہے۔ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ دھاتی تار سے زیادہ متاثر موٹر سائیکل سوار ہوئے ہیں۔

سڑکوں پر گڈی لوٹنے والوں کے لئے سخت قانون سازی اور اس پر عمل درآمد سے کماحقہ نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ بحثیت مسلمان موت برحق ہے۔ جگہ، وقت، وجہ سب متعین ہے۔ کیا اموات سڑک پر حادثات کی وجہ سے نہیں ہوتی؟ کیا ہم سڑکیں بند کر دیتے ہیں؟ کیا ٹریفک بند کر دیتے ہیں؟

خدارا اس تہوار اس پتنگ بازی کے کھیل کو نئے قوانین کے ساتھ شروع کریں۔ مخصوص دن یا مخصوص مہینے اور مخصوص جگہ پر منانے کی اجازت دینی چاہئے۔ دھاتی تار بنانے بیچنے استعمال کرنے والے کے لئے سزائے موت تجویز کی جائے اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے لوگوں کو اس کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے۔ نصابی تعلیم میں اس ایشو پر بچوں کی ذہن سازی کی جائے۔ تہوار یا پتنگ بازی کے کھیل پر پابندی لگا کر ہم کھو بہت کچھ رہے ہیں۔

دنیا میں اپنے ملک کا نام روشن کریں۔ دہشت گردی کے خوف کے بت توڑیں۔ اپنا سوفٹ امیج دنیا کے سامنے لے کے آئیں۔ اپنے لوگوں کو اس سے روزگار کمانے دیں۔ عیدین کے علاوہ کوئی تہوار نہیں جس میں ملکی معشیت اس وسیع پیمانے پر اوپر جاتی ہو جس ملک کی معشیت مضبوط ہوتی دنیا قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ یہ محاورہ تو سنا ہی ہوگا "جہیڑے گھر دانے اودے کملے بھی سیانے"۔

ایک غلط فیصلے کو لیکر ہمیشہ اس کو صیح ثابت کرنے کے لئے پہرے دیتے رہنا مناسب نہیں لگتا۔ رجوع کر لینے میں حرج نہیں ہوتا خاص کر جب ملکی مفاد عزیز ہو تو ذاتی عناد، انائیں، پس پشت ڈال کر بہتری کے لئے کام کرنا چاہئے مجھے امید ہے کہ انشاءاللہ اس تہوار اس کھیل کو دوبارہ سے انسانی جان کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے منانے کی اجازت مل جائے گی۔ ہم اس دشمن ملک کی کھیلوں اور سیاحت پر لگائی گئی کاری ضرب کا توڑ نکال لیں گے۔

اچھی مثبت سرگرمیاں معاشرے میں بہتری لاتی ہیں۔ بہار کی ہوائیں ہمیں کچھ کہہ رہی ہیں۔

Check Also

Science Aur Mazhab

By Muhammad Saeed Arshad