Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Aik Footpath Ki Aah O Zari

Aik Footpath Ki Aah O Zari

ایک فٹ پاتھ کی آہ و زاری

میں لاہور کے دل میں واقع ایک تاریخی سڑک مال روڈ کا ایک شکستہ ریختہ فٹ پاتھ ہوں۔ میرے بالمقابل انصاف دینے والی بلڈنگ کا دروازہ ہے۔ پر ہنوز میرے ساتھ نا انصافی کی جا رہی ہے۔ میرے ایک طرف بہت پرانا تعلیمی ادارہ ہے۔ اس ملک کی بہت نامی گرامی شخصیت اپنے والدین کے ساتھ انگلی پکڑ کر روزانہ ادھر سے گزرتی رہی ہیں۔ ملک بننے سے پہلے اور اس کے بعد جتنے بھی احتجاج ہوئے چاہے وہ مذہبی تھے یا سیاسی سب کے پاؤں کے نشانات میرے قلب میں اور میرے وجود کا حصہ ہیں۔ جی آپ نے صیح پہچانا میں ریگل چوک کا ہمسایہ ہوں۔

جتنے رومانوی ناول نگار شاعر۔ ادیب، فنکار، صحافی وکلاء حضرات۔ مصنف سب کی تحاریر، تصانیف یا مجالس کسی نہ کسی رنگ میں مجھے یاد کیا جاتا ہے۔

یہ سب تمھید باندھنے اور اپنی اہمیت اجاگر کرنے کا مقصد آپ تک اپنی بے بسی لاچارگی ناانصافی اور اس ملک کی لاقانونیت کے بارے میں احساس دلانا مقصود ہے۔

کہ شاید تیرے دل میں اتر جائے میری بات

میرے ساتھ ناانصافی کا سلسلہ کافی دیر سے جاری ہے۔ جیسا عموما ہوتا آیا ہےکہ لاہور میں قبضہ مافیا اپنے پاؤں پھیلاتا ہے۔ میں بھی ان کی نظروں میں آگیا۔ اور آج میری جو حالت ہے وہ قابل رحم ہے۔ سب سے پہلے ایک مضبوط سیاسی شخصیت کی "سو" فٹ سڑک کی مرمت کے نام پر فٹ پاتھ کےشروع۔ درمیان، اور آخر پر بھاری بھرکم اینٹوں سے بنے تھڑے بنا کر ان میں افتتاح کی تختیاں نصب کی گئی اور تاحال نصب ہیں اور وہ شخصیت اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں۔ سب سے پہلاکٹ یہ لگایا گیا کہ پیدل چلنے والوں کے لئے رکاوٹ کھڑی کی گئی۔

دوسرا قدم واپڈا ملازمین کی ملی بھگت سے کھمبوں کی مضبوطی کے نام پر لوہے کے بڑے گارڈر میرے اوپر رکھ دئیے گئے۔ وہ تو بھلا ہو نشہ کرنے والوں کا کچھ عرصہ ان کا نشہ پانی ان گارڈرز سے پورا ہوتا رہا اور مجھے بھی تھورا سانس لینے کا موقع میسر آتا رہا۔ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نےجب پارکنگ کا ٹھیکہ دیا گیا تب زیادہ میرے پر مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دئیے گئے۔ مجھے جگہ جگہ سے زخمی کیا گیا۔ میری کبھی بھی مرہم پٹی نہیں کی گئی۔

میری تاریخی حثیت ہونے کہ باوجود ملک کے معاشرے کے چلن کے مطابق جو بھی تاریخی قابل احترام شخصیت یا مقام اس کوفراموش کر دیتے ہیں قدر نہیں کرتے۔ میرے ساتھ بھی سوتیلاپن رویہ رکھا گیا۔ شنید ہے ایک وکیل میری حالت زار دیکھتے ہوئے اس انصاف کے ادارے میں میری کتھا لیکر گیا تھا۔ وہ اس وقت کے منصف کی فائلوں کے انبار میں دب کر رہ گئی جب ناجائز تجاوزات بل بورڈز اتارنے کا شور و غوغا عام تھا۔ پر میری حالت زار پر کسی کو ترس نہ آیا۔ جو بچے اسکول آنے جانے کے لئے میری خدمات لیتے تھے ان کے احتجاج سے تنگ آکر دانستہ یا نا دانستہ ان دیکھےدباؤ کے پیش نظر اسکول کے اس مرکزی گیٹ کو بند کروا دیا گیا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔۔

اب میری یہ حالت ہے کہ جیسے جیسے دن گزرتا ہے قبضہ مافیا موٹر سائیکل کار پارکنگ کی چکر میں مجھ پر اندھا دھند رش ڈال دیتا ہے۔ وہ لوگ جو مجھ پر گزر کر راحت محسوس کرتے تھے جنکے قدموں کے چلنے سے ان کی خدمت کرنے سے مجھے بھی ایک تفخر سا محسوس ہوتا تھا۔ وہ سب اس قبضہ مافیا کے ہاتھوں ہوا ہو چکا ہے۔ روز اس امید پر پھر سے کمر کس لیتا ہوں کہ شاید کسی حکمران، کسی انصاف دینے والے انصاف دلانے والے کی نظروں میں معتبر ٹھر جاؤں اور مجھے اس نادیدہ قوت سے نجات مل جائے جو آئے روز مجھے اپنے چنگل میں سمیٹتے جا رہی ہے۔ کہ مجھےمیری میراث مل جائے میری پہچان مجھے مل جائے میں آج بھی ان لوگوں کے رہ گزر کا امین ہوں جواس دنیا سے چلے گئے پر مجھے اپنی تصانیف میں لکھ گئے اور تاریخ کےایک انمٹ نقوش میں ڈھال گئے۔

یہ کتھا اس لئے بیان کی کہ سنا ہے پنجاب کا موجودہ کرتا دھرتا جو بغیر ووٹوں کے مسند اقتدار پرہے اور آئے روز وہ میڈیا پر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے شاید میری مدد کو بھی آ جائے اور میری بھی سنی جائے اور مجھے اس پارکنگ مافیا سے نجات دلا کر میرا ماضی میری جوانی میراحسن مجھے لوٹا دے۔ آخر حسن ظن بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔

منجانب۔ مال روڈ کا ایک ٹوٹا پھوٹا تاریخی یرغمال فٹ پاتھ۔۔

Check Also

Science Aur Mazhab

By Muhammad Saeed Arshad