Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Abrar Majid/
  4. Mojuda Surat e Haal Chand Guzarishat

Mojuda Surat e Haal Chand Guzarishat

موجودہ صورتِحال چند گزارشات

ہماری قوم کے اندر بے پناہ خوبیاں اور صلاحیتیں ہیں، جن کا استعمال بے جا اور غلط جگہ پر ہورہا ہے اور مجھے قوی امید ہے کہ، اگر ان کا استعمال ٹھیک ہوجائے، تو ہمارا ملک دن دُگنی، رات چوگنی ترقی کرسکتا ہے۔ اس وقت پا کستان کا سب سے بڑا چیلنج اقتصادی صورتِحال ہے۔ جس کا فی الفور کوئی حل تو ممکن نہیں، مگر اس کو سنبھال کر بہتری کی کوشش کا بہترین آغاز ممکن ہے۔ جس کے لئے سیاسی استحکام، پہلی شرط ہے اور اس میں سب سے بڑا کردار اور ذمہ داری حکومت پر آتی ہے، کہ وہ مخصلانہ کوشش کرے جسکا حزبِ اختلاف کو بھی مثبت جواب دینا چاہیے، اور عوام کو اس میں عملاً شامل ہوکر نہ صرف اس کی نگرانی کرنی چاہیے، بلکہ اپنے اپنے حلقوں کے اندر نمائندوں کا گھیراؤ بھی کرنا چاہیے، کہ اب اس سیاسی آنکھ مچولی کا وقت نہیں۔

سب سے پہلے حکومت کے پاس آپشن ہے، کہ وہ حزبِ اختلاف کو ایک گرینڈ ڈائیلاگ کی دعوت دے کر، اس کوشش کا آغاز کرے۔ اپنے انتقامی رویے کو یکسر بدل دے، اور اداروں کے سربراہان کو غیر جانبدارانہ اور شفاف طریقے سے کام کرنے دیں۔ جہاں جہاں حزبِ اختلاف کے تحفظات ہیں، ان پر مزاکرات کا دروازہ کھولیں اور ایک غیر جانبدار، اچھی شہرت کے حامل پارلمنٹیرینز کی ایک کمیٹی بنائی جائے، جو ان کو دور کرکے مفاہمت میں موثر شمولیت کا موقعہ فراہم کرے۔ اگر تو حکومت اور حزبِ اختلاف واقعی مخلص ہیں، تو اس مفاہمت میں ان کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ دونوں کافی حد تک اپنے اپنے شوق پورے کر چکے ہیں، جس کے نتائج بھی ملک و قوم کے سامنے ہیں۔ اور ملک کے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے، قربانی بھی دینی پڑے تو اسے فریضہ سمجھ کر ادا کرنا چاہیے۔

مفاہمتی معاہدے کے بعد ایک قومی حکومت ترتیب دی جانی چاہیے، جس میں تمام تجربہ کار پارلیمنٹیرینز کو، جس جس شعبہ میں ان کے پاس علم اور تجربات ہیں، خدمت کا موقع دیا جائے تاکہ، جتنی جلد ہوسکے حالات کو خطرات سے باہر نکالنا ممکن بنایا جسکے۔ اسی طرح سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ، معاشی معاملات کی بہتری کے لئے ماہریں کا ایک تھنک ٹینک بنا کر ان کی نگرانی میں اصطلاحات لائی جائیں۔ جن میں بیرونِ ملک پاکستانیوں، اور دوسرے بین الاقوامی سرمایہ داروں کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے ایسی پالیسیاں بنائی جائیں، جن سے ان کے اندر کشش اور تحفظ کا احساس پیدا ہو، تاکہ زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری کا ماحول پیدا ہو۔ جس میں سب سے اہم سی پیک کا منصوبہ ہے، جس کے ساتھ چائینہ اور کئی دوسرے ممالک کی پہلے سے دلچسپیاں موجود ہیں۔

اس منصوبے کے ساتھ ساتھ، انڈسٹری اور تجارت کے لئے پرکشش مراعات کا اعلان کیا جائے۔ افرادی قوت کی ترقی والے منصوبوں کو، ترجیحی بنیادوں پر شروع کرنے میں دن رات ایک کردیا جائے۔ بین الاقوامی سرمایہ داروں کے لئے بین الاقوامی سطح کی سہولتوں کو یقینی بنایا جائے، تاکہ زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کئے جا سکیں۔ منافع زیادہ، تجارتی خسارہ کم اور دوسرے ہماری افرادی قوت کو بھی ہنر سیکھنے کے ساتھ ساتھ، تجربہ حاصل کرنے کا موقعہ ملے گا۔ اقتصادی پالیسی میں مالی نظام کے ڈھانچے میں بھی بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، جس سے سرمائے کا بہاؤ غریب طبقے کی طرف ہو، جس میں سودی نظام کے متبادل کوئی نظام رائج کرنا ہوگا۔ اب تو مروجہ نظام کے متوازی، اسلامی مالیاتی نظام کے نمونے بھی موجود ہیں، صرف ان کو اپنانے کے لئے کوئی لائحہ عمل بنانا ہوگا۔

اس کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تربیت اور سہولیات کو جتنا ممکن ہو آسان بنایا جائے، اور حکومتی تمام عوامل کو اس کے ساتھ جوڑا جائے، جسے ای گوننس کا نام دیا جاتا ہے، اس سے نظام خود کار اور ساتھ ساتھ شفاف بھی ہوجاتا ہے۔ اخراجات کم اور تیز رو بھی ہوجاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ، نظام کو عوام کا اعتماد حاصل ہونے کے بعد، عوام ترقی کے عمل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اداروں کے سربراہان کے چناؤ اور ان کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کے لئے بھی، ایک غیر جانبدار اور اچھی شہرت کے قائدین میں سے ایک کمیٹی بنا کر یہ کام ان کے سپرد کیا جائے، تاکہ اداروں کو صحیح معنوں میں فعال بنایا جاسکے۔

اصطلاحات کے زریعے میڈیا پالیسی بنائی جائے، جس میں میڈیا ہاؤسز کو سرمایہ داران کی ملکیت سے نکال کر، بورڈز کے حوالے کیئے جانے کی پالیسی بنائی جائے اور اس کی مانیٹرنگ اور شفافیت کے عمل کے لئے بھی کمیٹی ہونی چاہیے، اور کوشش کرنی چاہیے کہ اس کو منافع بخش کی بجائے، پیشہ ورانہ بنانے کی سفارشات تیار کرکے اس پر عمل کو یقینی بنایا جا سکے۔ جس سے ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو پیشہ ورانہ تجربات کے ساتھ ساتھ اچھے صحافتی ماضی کے حامل ہوں، اور سرمایہ داروں کی حوصلہ شکنی کرکے ان کو دوسرے شعبوں میں جانے کی ترغیب دی جائے، جو صرف اور صر ف پالیسیوں اور ماحول سے ہی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

اور میڈیا کی مدد سے عوام کے اندر جمہوری اقدار اور سول بالادستی کے لئے کام کرنے والے ماہریں کو یہ ٹاسک دیا جائے، کہ وہ عوام کے اندر قومی شعُور کو اُجاگر کرنے کے لیئے ایسے پروگرامز ترتیب دیں، جس سے جمہوری نظام کو فعال کرنے کی کوششوں کو کامیاب کیا جاسکے۔ قوم کے اندر ترقی کے جذبہ کو ابھارا جائے، اور ان کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مثبت کارکردگی کے راستوں بارے معلومات دی جائیں۔ تعلیمی اداروں کو بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ جوڑا جائے، اور تحقیق کی بنیاد پر ایسے شعبوں کو ترویج دی جائے، جن کی ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ضرورت ہے۔ قومی سوچ اور جذبہ پیدا کرنے کے لئے بھی، تعلیمی اداروں کے کردار کو فعال بنایا جائے۔

اور پارلیمنٹ کے اندر سِول بالادستی کے لئے ایک کمیٹی بنائی جائے، جو سِول بالادستی کی کوششوں کے لئے اصطلاحات لانے کے ساتھ ساتھ، سِول بالادستی اور جمہوریت کے لئے کام کرنے والے سیاستدانوں، سول سوسائٹی، صحافت اور اداروں کے سربراہان کی کار کردگیوں کو دیکھتے ہوئے، ان کے لیئے سِول بالا دستی کے صدارتی ایوارڈز کی سفارشات بھی مرتب کرے۔ زرعی اصطلاحات لائی جائیں، جس میں ملکی ضروریات کے پیش ِنظر شماریات کے زریعے، ہر پیداوار کے لئے ترجیحاتی بنیادوں پر تعین کے بعد کاشت کو یقینی بنایا جائے، اور زمینداروں کو پیشگی نرخ سے آگاہی اور خریداری کو بھی یقینی بنائے جانے کے ساتھ ساتھ، مراعات اور سہولتیں بھی بہم پہنچائی جائیں۔

ملکی سالمیت اور اس بارے، پالیسی کے قیام بارے تمام سٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک کونسل بنائی جائے، جس کی سفارشات پر عمل کو ترجیحی بنیادوں پر یقینی عمل سے اصطلاحات لائی جائیں، تاکہ انٹیلجنشیا اور اسٹیبلشمنٹ کے تحفظات، اور ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لئے بروقت جامع حکمت عملی کو لاگو کئے جانے کو بھی یقینی بنایا جاسکے۔ اسی طرح ایسے تھنک ٹینکس بنائے جائیں، جو نئے نئے مواقع تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ، اندرونی اور بیرونی حالات پر کڑی نظر رکھیں اور ہر طرح کے متوقع خطرات سے حکومت اور اداروں کو بر وقت مطلع کریں، تاکہ ان سے پیشگی نمٹنے کی حکمت عملی بنائی جاسکے۔

سیاستدانوں، رضاکارانہ تنظیموں سے لے کر ریٹائرڈ افسران تک کسی کو بھی فارغ نہ چھوڑا جائے، تاکہ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ تمام کے تمام شعبوں، جن میں مذہبی اور رضاکارانہ تنظیمیں ہیں، کو قومی دھارے میں لایا جائے اور ایسا ماحول بنایا جائے کہ، کسی بھی طبقہ فکر یا شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد یا گروہ کو احساس محرومی نہ ہو، بلکہ وہ ترقی کی کام کا بخوشی حصہ بننے میں فخر محسوس کریں۔ آخر میں طاقتور حلقوں سے گزارش ہے، کہ وہ اپنی توانائیوں کو استعمال کرتے ہوئے اس ملک و قوم پر احسان کریں، اور پاکستان کو اقتصادی، ناگہانی اور حادثاتی صورتحال سے نکالنے کے لئے، قومی مزاکرات کے بعد، قومی حکومت کے لائحہ عمل کے زریعے سے بہتری کو ممکن بنانے کی راہ ہموار کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

عوام سے بھی گزاراشات ہیں کہ، خدا را ترقی کے عمل کا عملی حصہ بنیں اور جو سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں عوامی فلاح اور ملکی سلامتی کے لئے اس مفاہمتی عمل میں رکاوٹ بنتے ہیں، یا اخلاص کا مظاہرہ نہیں کرتے، ان کا گھیراؤ کرنا چاہیے اور جمہوری عمل کی راہ میں ہر رکاوٹ پر نظر رکھنی چاہیے، اور اس کی اصلاح میں کوشش کا عمل بھی جاری رہنا چاہیے۔

Check Also

Kya Irani Mazhab Bezaar Hain?

By Syed Jawad Hussain Rizvi