Mandate Churane Walon Ke Liye Aam Maafi Ke Mutalbe
مینڈیٹ چرانے والوں کے لیے عام معافی کے مطالبے
آج کل میڈیا کو دیکھ، سن اور پڑھ کر ہنسی بھی آتی ہے، شرم بھی اور غصہ بھی۔ حد ہوگئی ہے۔ پچھلے دس سالوں کی صحافت اور سیاست کا انداز اور مزاج جو منظر نامہ پیش کر رہا ہے انتہائی خطرناک ہے۔ تسلسل کے ساتھ ایک خاص موقف کی تائید اور حمائت کرتے کرتے اب وہ ان کے گلی میں پھنسی ہوئی ہڈی بن چکا ہے جو نہ اگل سکتے ہیں اور نہ ہی نگلا جا رہا ہے۔ ان کا بیانیہ اب سادہ ذہنوں میں اس قدر پختہ یقین کی صورت اختیار کر چکا ہے کہ اس کے برعکس سچی بات بھی جھوٹ لگنے لگتی ہے۔
اس کیمیائی بیانیے نے ذہنوں (دانشوروں) اور جسم (معاشرے) کو اس قدر اپنا عادی بنا لیا ہے کہ اس سے جان چھڑوانا مشکل ہو چکا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ نگران اور دانشور جس کیمائی بیانیے کے مشروب کو اس یقین دہانی کے ساتھ پلاتے رہے ہیں کہ یہ آب شفا ہے وہ اب کیسے کہیں کہ یہ زہر تھا اور یہ زہر اب اس قدر سرائیت کر چکا ہے کہ اس کے اثرات کے عادی ذہن اور جسم اب اس کے بغیر اپنے سر پٹختے ہیں۔ جس کا اندازہ آپ کو خبروں اور وی لاگز کے تھمب نیلز سے ہو سکتا ہے۔ جب تک انتشاری زائقے کی چاشنی نہ لگائیں مال بکتا ہی نہیں۔
ہمارے نگرانوں اور دانشوروں نے بڑی محنت اور یقین کے ساتھ اپنی اولادوں اور نوجوان نسل کو جو سبق دئے ہیں کہ فلاں صادق و امین ہے، امت مسلمہ کا لیڈر ہے، محب وطن ہے، تمھارا اصل نجات دہندہ ہے اور فلاں غدار ہے، چور ہے، ڈاکو ہے ملک کا دشمن ہے۔ وہ آج کس منہ سے ان کو کہیں کہ ہم آپ سے سب جھوٹ بولتے رہے ہیں اور جب اس طرح کی بات کرتے ہیں تو اولاد مارنے کو پڑتی ہے کہ تم پاغل ہوگئے ہو، وہ غدار نہیں اصل غدار تم ہو، تم بِک گئے ہو، چوروں غداروں اور ملک دشمنوں کے ساتھ مل گئے ہو۔
تم ہو ہی ایسے، تم بِکے ہو ہم بِکنے والے نہیں، ہم جھکنے والے نہیں۔ ہم اُسی کے ساتھ ہیں جسے تم نے صادق و امین کہا تھا، محب وطن کہا تھا، ہممارا نجات دہندہ کہا تھا۔ پھر وہ سوال کرتے ہیں۔ بتا کس نے کہا تھا؟ پھر سوال ہوتے ہیں وہ کون تھا؟ پھر وہ کہتے ہیں تم نے ہمیں یہ سب کچھ بتایا تھا، تم ہمارے سامنے وہ بڑی بڑی فائلیں رکھتے تھے اور کہتے تھے یہ ثبوت ہے یہ شہادت ہے، تم نے ہمیں کہا تھا کہ ان کو ڈاکو کہیں ان کو غدار کہیں، ہم تو سب بتائیں گے ہم تو خاموش رہنے والے نہیں۔
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ یہ پچھلے دس سالوں میں ہوش سنبھالنے والے، جوانیوں میں قدم رکھنے والے، سوشل میڈیا سے سیاسی شعور حاصل کرنے والے صحیح کہتے ہیں ان کا قصور نہیں وہ سچے ہیں ان کا یقین بھی ٹھیک ہے، وہ پاغل بھی نہیں، ان کو یہی کرنا چاہیے جو وہ کر رہے ہیں۔ اصل قصور تو ان دانشوروں کا ہے جو نگرانوں کے کہنے پر جھوٹ کا یہ کیمیائی بیانیہ بیچتے رہے ہیں جنہوں نے اس نسل کو یہ یقین دیا ہے جنہوں نے انہیں سیاسی تفرقہ بازی میں دھکیلا ہے، جنہوں نے انتشار پسندی کی آگ میں ان کو جھونکا ہے۔
اب وہی دانشور قوم کو اس جھوٹ والے کیمائی بیانیے کی عادت کو چھڑوانے کے لئے جو سٹیرائڈ دے رہے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے جو ان کے اندر سے وہ کیمیائی تاثرات کو تو ختم نہیں کر سکتا لیکن وہ ایک ایسے کیمیکل کے عادی ضرور بن رہے ہیں جو ان کے مدافعتی نظام کو بھی برباد کر دے گا جو ان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو بھی۔ اب آئین و قانون کے بھاشن والے کیمیکل کھلانا شروع کر دئے ہیں۔
چند دہائیاں پہلے پنجاب اور سندھ کی حدود میں جو کچے کے ڈاکو راہزنی کیا کرتے تھے ان کے پاس دولت تو بہت اکٹھی ہوگئی تھی مگر ان کی زندگی وہی بے سروپا تھی جنگلوں میں بسیرا تھا راتوں کو جاگتے تھے دن کو کہیں پڑے رہتے۔ اپنی اولادوں کو بھی راتوں کے اندھیرے میں چھپ چھپا کر ملنا پڑتا تھا اور جب دوسروں کو دیکھتے تو ان کو بھی رشک آتا تھا کہ کاش ہم بھی آزاد ہوتے تو انہوں نے ایک دن فیصلہ کیا کہ اس کام کو چھوڑ کر اپنی زندگی کو سِولائز کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنا مال متاع اکھٹا کرکے شہروں کا رخ اختیار کر لیا اور سر پر ٹوپیاں ہاتھوں میں تسبیحاں پکڑ لیں لوٹے ہوئے پیسے سے فیکٹریاں بنالیں اور بینکوں سے بھی قرضے لے کر سرمایا کاری کر دی اور معاشرے کے معززین میں ان کا شمار ہونے لگا۔
تحفے تحاف بھی لیتے دیتے اور صدقہ خیرات و رفاعی کاموں میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز انہوں نے خرید لیے اور کوئی ان کے خلاف ان کی ماضی کے حوالوں سے بات کرنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ کامرس کے چیمبرز کی صادارتیں ان کی پاس آگئیں۔ وہ اپنی فیکٹریوں کی انشورنس کرواتے اور اس سے قیمتی چیز نکال کر ان کو آگ لگا کر ضائع کر دیتے کچھ عدالتوں کے زریعے نقصان دکھا کر بینکوں سے معاف کروا لیتے اور کچھ انشورنس کمپنیوں سے وصول کر لیتے۔ یوں انہوں نے اپنی کارستانیوں کو قانونی تحفظ دے کر اپنے آپ کو معززین میں بھی شمار کر لیا اور زندگی بھی آسان بن گئی۔
ہمارے ہاں بھی کچے کی سیاست کے ڈاکوں نے جو عوامی مینڈیٹ لوٹ کر سیاسی فیکٹریاں لگائی تھیں وہ آج جمہوری انڈسٹری کے مالک بن چکے ہیں۔ نظام عدل میں بھی انکی سرمایہ کاری ہوچکی ہے۔ انتظامیہ میں بھی ان کی پیداوار جن کو انہوں نے پچھلے دس سالوں کے کیمائی بیانیے سے ذہن سازی کرکے تیار کیا تھا پہنچ چکی ہے اور ہر طرف ان کی معصومیت کی بانسریاں بج رہی ہیں اور وہ آج کی سیاست کے معززین میں شامل ہوچکے ہیں انہوں نے رفاہی کام بھی کئے ہیں ان کے سروں پر ٹوپیاں ہیں اور انکے ہاتھوں میں تسبیحاں ہیں۔
جن کا مینڈیٹ لوٹ کر انہوں نے یہ سیاسی فیکٹریاں لگائی تھیں انہوں نے ان کی شناخت کروا دی ہے، مال مقدمہ پکڑا جا چکا ہے، پہلے والے نگران بدل چکے ہیں لیکن وہ دانشور جو بیانیے بیچتے تھے ان میں کچھ کا تو بندو بست ہو چکا ہے لیکن کچھ ابھی پہنچ سے باہر ہیں جن کے اپنے میڈیا ہاؤسز ہوں ان کے بیانیوں کو بدلنا کوئی آسان کام تو نہیں وہ اس وقت نگرانوں سے بھی بڑی طاقت بن چکے ہیں اور اب وہ آئین و قانون میں برابری اور ماضی کو بھول کر ان کچے کے ڈاکوؤں کے لئے عام معافی کے مطالبات کے بیانیے پر آ چکے ہیں اور قانونی معاملات کو بھی ظلم و ستم میں شمار کرکے دکھا رہے ہیں۔
اب کا بیانیہ آئین و قانون اور دانشمندی کا لبادہ اوڑھ چکا ہے۔ کہتے ہیں انہوں نے کس سے مینڈیٹ لوٹا کہاں سے انشورنس کے زریعے مال متاع اکٹھا کیا سب پر مٹی پاؤ۔ ان کے سروں پر ٹوپیاں، ہاتھوں میں تسبیحاں اور ان کی نیک نامیوں اور عوامی فلاح و خیراتی اداروں کے پرچار کئے جا رہے ہیں اور جن کو یرغمال بنا کر ان کا مینڈیٹ لوٹ گیا تھا ان کا ذکر بھی گوارا نہیں ان کی بے گناہی کی معافیاں بھی مشکوک بنائی جارہی ہیں۔
یہ حالات ہیں ہماری سیاست کے۔ کہا جاتا ہے جنہوں نے 9 مئی کو ملک و قوم کی آزادی اور دفاع کو روندنے کی کوشش کی، جھوٹ کے نام پر شعور کا چورن بیچا، سیاسی اصولوں اور جمہوری اقدار کا جنازہ نکال دیا اگر ان کے ساتھ برابری نہ کی گئی تو قانون کی حکمرانی پر آنچ آ جائے گی انسانی حقوق کا مسئلہ کھڑا ہوجائے گا جمہوریت ڈی ریل ہوجائے گی، سیاسی عدم استحکام پیدا ہوجائے گا، الیکشن متنازع ہوجائیں گے، معیشت تباہ ہو جائے گی۔ اگر ان سے مال لے کر جن سے لوٹا گیا ہے ان کو واپس دیا گیا تو لڑائی جھگڑے اور فسادات برپا ہوجائیں گے اور امن عامہ کا مسئلہ کھڑا ہوجائے گا۔
آئین و قانون سے کوئی انحراف نہیں کر سکتا۔ جمہوری اقدار اور سیاسی اصولوں کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں انسانی حقوق کی پاسداری کے بغیر انصاف قائم نہیں ہوسکتا مگر حقوق سب کو دینے پڑیں گے، سیاسی اصولوں اور جمہوری اقدار کا سب کو پابند بننا ہوگا۔ قانون میں برابری کے لئے لوٹے ہوئے مینڈیٹ کو واپس کرکے اپنے جائز کی حد تک اکتفا اور اطمئنان کرنا پڑے گا۔ لوٹا ہوا مال تو اپنی دولت میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ سیاسی اصولوں اور جمہوری اقدار کا پرچار کرنے سے پہلے ماضی میں کی گئی بے ضابطگیوں کا اعتراف کرکے ان پر قوم سے معافی مانگنا ہوگی مطالبات سے پہلے اپنے آپ کو ان اصولوں اور اقدار کا پابند بنانا پڑے گا۔ آدھا نہیں پورا سچ بولنا پڑے گا۔