Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Abrar Majid
  4. Hamare Bohrano Ka Wahid Hal Danda?

Hamare Bohrano Ka Wahid Hal Danda?

ہمارے بحرانوں کا واحد حل ڈنڈا؟

قوموں پر بحران آتے ہیں تو وہ تفکر، تدبر، ایمانداری، جزبے، محنت اور حوصلے کے ساتھ اس پر قابو پالیتی ہیں مگر اس کے برعکس ہمارے حالات دن بدن خراب ہوکر مزید پیچدگیوں کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ ایک مشکل ٹلتی ہے تو دوسری سر اٹھا لیتی ہے۔ ہم ایک قدم ابھی آگے نہیں بڑھے ہوتے تو دو قدم پیچھے چلے جاتے ہیں اور افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ اس ساری صورتحال کے پیچھے ملک و قوم کی فلاح اور جب الوطنی کا دعوی برسر پیکار ہے۔

اس کی بنیادی وجہ ہماری وہ تربیت ہے جس کا محور بد اخلاقی، جہالت اور ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہوئی سوچ ہے جو ہمیں اس دھوکے میں ڈالے ہوئے ہے کہ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہی ٹھیک ہے۔ ہم جدید ترقی کے معیار اور اہداف سے لاعلم اپنی دانشمندی کے ڈھنڈورے پیٹے جارہے ہیں۔ ریاست کو ناقابل تسخیر بنانے کے عمل کی کسوٹی آئین و قانون کو بالائے طاق رکھے ہوئے حب الوطنی کے نعرے لگائے جارہے ہیں جبکہ ہمارا کامیابی کا معیار ذاتی خواہشات اور مفادات ٹھہرے ہوئے ہیں۔

صوتحال یہ ہے کہ اگر کسی کو سرحدوں کی حفاظت دی جاتی ہے تو وہ "اِدھر کا مال اُدھر اور اُدھر کا مال اِدھر" کو اپنا سائڈ بزنس بنا لیتا ہے۔ اگر کسی کو عوام کی حفاظت پر مامور کیا جاتا ہے تو وہ عوام کی ہی جیبوں کی تلاشی شروع کر دیتا ہے اور تو اور جن کو قوم کا مسیحا بننا تھا وہ بھی تھانیدار بنے بیٹھے ہیں۔

صنعت و تجارت اور خوراک کا شعبہ ایسے لوگوں کے حوالے ہے جن کو صرف اور صرف دولت اکٹھی کرنے کا خبط ہے انسان کی پہلی ضرورت صحت کے لئے خوراک تک ملاوٹ سے زہریلی ہو چکی ہے حتیٰ کہ جان بچانے والی دوائیاں خالص نہیں ملتیں۔

لٹ مار کا بازار لگا ہوا ہے۔ ہر کوئی ایک ہاتھ سے لوٹ رہا ہے تو دوسری طرف سے کسی اور کا ہاتھ اس کی جیب میں ہے۔ مہنگائی کی شرح بڑھتی جارہی ہے اور زرمبادلہ کے زخائر کم ہوتے جارہے ہیں۔ ہر کسی کو اپنی فکر ہے ملک و قوم کی پرواہ ہی نہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھ رہا ہے گویا ہر کسی کے اندر چور گھسا ہوا ہو۔ کردار اور کارکردگی کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں۔ اچھے اور برے میں تمیز ختم اور بے گناہ اور قصور وار کا فرق کئے بغیر خدشات اور الزامات کو صحافت اور دانشمندی سمجھا جارہا ہے۔ معاشرہ پستی کی حدوں کو چھو رہا ہے۔۔ ہزار بار سمجھاؤ کسی کو سمجھ ہی نہیں آتی۔ کسی کے اندر احساس تک نہیں جاگ رہا اور ہر سطح پر بہتری کے اثرات ڈنڈے کے کمالات سے ہی ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

شائد ہماری اس موجودہ بااختیار نسل کی تربیت ہی ایسے ماحول میں ہوئی ہے جہاں سمجھنے، سمجھانے اور سیکھنے، سکھانے کا معیار ڈنڈا ہوا کرتا تھا۔ یہ اس دور کے پڑھے ہوئے ہیں جب ایک بڑی مشہور کہاوت بولی جاتی تھی "آسمان سے اتریں چار کتابیں اور پانچواں اترا ڈنڈا"۔ بڑی مشکل سے ڈنڈے سے جان چھڑوانے کے لئے "مار نہیں پیار" کا نعرہ متعارف کروایا گیا بلکہ باقاعدہ قانون بنانا پڑا اور اساتذہ پر تھانوں میں پرچے کٹے مگر اس کے باوجود ابھی بھی مکمل طور پر ڈنڈے کے فیض سے دل آزاد نہیں ہوئے اور ریاست کے زیر انتظام سکولوں کے اساتذہ کا تو مشاہدہ ہے کہ جب سے ڈنڈا گیا ہے نسلیں زیادہ خراب ہونے لگی ہیں۔

ڈنڈے سے تو ہم نے جان چھڑوا لی مگر پیار سے سمجھانے کے معیار کا تجربہ بھی کامیاب نہیں رہا۔ پہلے والی نسلیں اتنی بدتمیز نہیں تھیں جتنی موجودہ "مار نہیں پیار" والی نسل ہے۔ پیار کا اثر یہ ہوا ہے کہ بد اخلاقی کو شعور کا نام دیا جا نے لگا ہے۔ جس کا آغاز تعلیم اور سیاست کو کاروبار بنانے والوں نے کیا جن کا مقصد تعلیم و تربیت اور فلاح سے زیادہ دولت اور مفادات کا حصول ہے۔

اس پیار اور لاڈ والی تربیت نے ملکی سیاست اور معیشت پر بھی اپنے گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ ہم پچھلی ایک دہائی سے مسلسل سیاسی اور اخلاقی بحران کا شکار ہیں اس دوران انتخابات بھی ہوتے رہے، حکومتیں بھی بنتی رہیں مگر ہماری سیاسی اشرافیہ کے کچھ طبقات اپنے سیاسی اختلافات کو پارلیمان میں حل کرنے کی بجائے انہیں چوک چوراہوں میں لا کر حل ڈھونڈنے پر بضد رہے۔ حقوق اور ذمہ داریوں کے نام پر عوام کا خون بہتا رہا، مہنگائی اور غربت کے نام پر سیاست کا کھیل کھیلا جاتا رہا۔

آخر کار اس سیاسی بحران نے ملک کو عدم استحکام کا شکار کرکے معیشت کا بھی بیڑا غرق کر دیا۔ اور ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ اس دوران ڈنڈا اور پیار دونوں انہیں مستیوں کے سنگ تھے اور خود سر مقبولیت کو اس قدر اوپر چڑھا لیا کہ 9 مئی نے آن لیا، تب احساس ہوا کہ اب بھی اگر اس طوفان بدتمیزی کو نہ روکا گیا تو بہت دیر ہوجائے گی۔ تو یوں ڈنڈے سے فیض یاب ہونے کا فیصلہ کیا گیا۔ اب حالات سنبھل تو گئے ہیں مگر ابھی بھی خدشہ یہ ہے کہ جب بھی آزادانہ طور پر سیاست کو چلنے کا موقع دیا گیا تو پھر سے وہی پرانی روش لوٹ آئے گی۔

ہماری معاشی بدحالی کی سب سے بڑی وجہ بدیانتی، بد عنوانی اور سیاسی عدم استحکام بن چکے ہیں۔ ہماری قوم میں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں جس کی دلیل اس سے بڑی کیا ہوسکتی ہے کہ ہمارے ہاں بد عنوانی کو روکنے کے لئے قوانین اور اداروں کی بھرمار ہے جو دن رات ایک کئے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم بدعنوانی کو تحفظ فراہم کیے ہوئے ہیں۔ لہذا ہمارا مسئلہ غربت ہی نہیں بلکہ حد سے بڑھی ہوئی دولت کی حوس بھی ہے۔ ہمارا مسئلہ تعلیم کی کمی ہی نہیں بلکہ وہ تعلیم یافتہ طبقہ بھی ہے جن کا پسندیدہ مشغلہ بدعنوانی ہے۔ اسی طرح ہمارا مسئلہ صلاحیتوں کی کمی ہی نہیں بلکہ ان کا غلط استعمال بھی ہے۔

ہماری سیاست کا یہ حال ہے کہ جو کوئی جیسا بھی نعرہ لگاتا ہے اس کو چوبیس کروڑ عوام میں سے اپنی سوچ سے مطابقت رکھنے والے پیروکاروں کی اچھی خاصی تعداد ہلہ شیری کے لئے میسر آ جاتی ہے اور سوشل میڈیا کے اس دور میں اتنی زیادہ تگ و دو بھی نہیں کرنی پڑتی بس انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کے فن کی مہارت ہونی چاہیے۔ کوئی کسی کا کردار، اس کی ملک و قوم کے لئے خدمت یا کارکردگی نہیں دیکھتا۔ جب جس کا بس چلتا ہے جتھے لے کر کبھی پارلیمان تو کبھی اداروں پر چڑھ دوڑتا ہے اور نعرے جمہوریت کے لگا رہا ہوتا ہے

معیشت کی تباہی میں ڈالر کے کردار بارے ہر کوئی جانتا ہے۔ ڈالر ہواؤں میں اڑنے لگا تھا جو پکڑائی نہیں دے رہا تھا اور بالاخر ڈنڈے نے جھلکی دی تو اس کی پرواز میں کچھ ٹھہراؤ آیا مگر نیچے اترنے کا نام ابھی بھی نہیں لے رہا۔

اس ساری تمہید کا مطلب عوام کے اندر مایوسی پھیلانا نہیں بلکہ حقائق کا بیان کرنا ہے تاکہ عوام سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اچھے برے میں تمیز کرتے ہوئے ملک کے ساتھ مخلص قیادت کا ساتھ دے کر خدشات پھیلانے والی سازشوں کی حوصلہ شکنی کریں۔

اس ڈنڈے سے چھٹکارے کا ایک ہی حل ہے کہ ہم بحثیت شہری اپنی سوچ و عمل سے اپنے حقوق اور فرائض میں ایک توازن قائم کرتے ہوئے قوم بننے کی جسارت حاصل کرلیں اور اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر قربان کرکے یہ ثابت کریں کہ ہم بھی دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑے ہونے کی اہلیت اور قابلیت رکھتے ہیں۔ وگرنہ پھر ڈنڈا تو مصروف عمل ہے ہی۔

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra