Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Basharat Hamid
  4. Google, Facebook Aur Eman Bil Ghaib

Google, Facebook Aur Eman Bil Ghaib

گوگل، فیس بک اور ایمان بالغیب

دین اسلام میں ایمان بالغیب اللہ کی ہستی کو ماننے کی اولین شرط ہے۔ جو شخص غیب پر ایمان نہیں رکھتا وہ مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔ علم حاصل کرنے والا طالب علم ایک استاد سے علم سیکھتا ہے اور استاد اس طالب علم کی ذہنی استعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کو سبق دیتا ہے اس کے سوالوں کے جواب دیتا ہے اور جیسے جیسے طالب علم اگلی کلاسز میں ترقی پاتا جاتا ہے ویسے ویسے اسکے سامنے علم کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔

جو علم اس نے ماسٹرز میں پہنچ کر حاصل کرنا ہے وہ اسے پرائمری لیول پر نہیں پڑھایا جا سکتا کہ وہ اس کا تحمل نہیں کر سکے گا۔ اس مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ اللہ نے انسان کو محدود صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ یہ انسان بے شمار ذہنی و جسمانی کمزوریوں کا حامل ہے اور ان کمزوریوں کے ساتھ یہ ایک حد سے زیادہ علم کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا اس لئے اللہ نے بہت کچھ اسکی نظر سے اس کے فہم سے اوجھل ہی رکھا ہے جس کو ہم غیب کہہ سکتے ہیں۔ یہ غیب بھی ہمارے لحاظ سے ہے اللہ کے لئے کچھ بھی غیب نہیں ہے۔

قرآن میں حضرت موسی کا واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ حضرت موسی ایک بار جب کوہ طور پر گئے تو عرض کی کہ اے باری تعالٰی میں تیرا دیدار کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ نے فرمایا کہ موسی تم مجھے دیکھنے کا تحمل نہیں کر سکتے۔۔ ہاں اس پہاڑ پر نظر رکھو اگر وہ میری تجلی کو برداشت کر گیا تو پھر تم بھی دیکھ سکو گے۔۔ جب اللہ رب العزت نے اس پہاڑ پر اپنی تجلی ڈالی تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا اور حضرت موسی بے ہوش ہو کر گر پڑے۔۔ جب ہوش میں آئے تو اللہ سے اپنی جسارت پر معافی طلب کی۔ اس واقعے سے یہ ثابت ہوا کہ اس کائنات کے بے شمار حقائق ایسے ہیں جو انسان کے تحمل اور برداشت کی قوت سے باہر ہیں۔

دور جدید میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے ایمان بالغیب کو سمجھنا جتنا آسان کر دیا ہے اتنا یہ ماضی میں نہ تھا۔ اپنے ہاتھ میں پکڑے سیل فون کا تجزیہ کیجئے کہ یہ کس ذریعے سے دوسرے فون اور انٹرنیٹ سے کنکٹ ہے ہمیں تو کوئی تار یا درمیانی واسطہ نظر نہیں آتا۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ فون الیکٹرومیگنیٹک ویوز کے ذریعے دنیا کے تمام نیٹ ورکس کے ساتھ کمیونیکیشن کرتا ہے جس کے نتیجے میں ہم ہزاروں میل دور بیٹھے لوگوں سے بات چیت کر سکتے ہیں۔

کیا ہم نے الیکٹرومیگنیٹک ویوز کو حواس خمسہ کے ذریعے محسوس کیا ہے۔۔ نہیں کیا۔۔ تو کیا ہم ان کے موجود ہونے کا انکار کر سکتے ہیں کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں۔۔ آپ کا جواب یقیناً نفی میں ہوگا۔ اگر یہی بات آج سے ڈیڑھ دوسوسال پہلے کسی بندے کو کہی جاتی کہ ایسی الیکٹرومیگنیٹک ویوز پائی جاتی ہیں جن کے ذریعے دور دراز ممالک میں بیٹھے لوگ کمیونیکیشن کر سکیں گے تو وہ اس بات کو تسلیم نہ کرتا۔ لیکن کیا ماضی کے کسی شخص کے انکار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایسی لہریں وجود ہی نہیں رکھتیں۔۔ بالکل بھی نہیں۔۔ کیوں کہ حقیقت ہمارے سامنے ہے۔

اللہ نے قرآن مجید میں بار ہا ذکر فرمایا ہے کہ ہم نے تم پر نگران مقرر کر رکھے ہیں جو تمہارے ہر فعل کو ریکارڈ کر رہے ہیں اور حشر کے دن ہم یہ ریکارڈ تمھارے سامنے رکھ دیں گے۔۔ آج سے چند سال پہلے کا مسلمان ضرور یہ سوچتا ہوگا کہ میری زندگی کی کارگزاری لکھنے کیلئے کتنے بڑے بڑے رجسٹر درکار ہوں گے کیسے ہر حرکت ہر فعل اس میں لکھا جائے گا لیکن کیا گوگل کے زمانے کے لوگ اس بات کو باآسانی سمجھ نہیں سکتے۔۔

ہمارے ہاتھ میں پکڑا ہوا فون ہماری لوکیشن کو ٹریس کرتا ہے۔۔ ہم کسی ویب سائیٹ پر جائیں وہاں جو کچھ بھی ہم وزٹ کریں اس کا سارا ریکارڈ براوزنگ ہسٹری میں پڑا ہوتا ہے جب مرضی نکال کر دیکھ لیجئے۔۔ اگر ہم اپنے موبائل یا کمپیوٹر سے ہسٹری ڈیلیٹ کر بھی دیں تو انٹرنیٹ سرور سے تو ڈیلیٹ نہیں ہوتی۔

آپ اپنی فیس بک پروفائل کی شروع سے آج تک کی ہسٹری دیکھنا چاہیں تو وہ بھی فیس بک آرکائیو میں پڑی مل جائے گی۔۔ آپ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ جو جو کچھ آپ نے کئی سال پہلے شئر کیا تھا وہ ویسے کا ویسا وہاں ریکارڈ میں موجود ہے۔ یہ تو انسان کے بنائے ہوئے نظام ہیں جو ہستی اس کائنات کی خالق ہے اس کے کیا کیا سسٹمز ہوں گے جو ہمیں مانیٹر کر رہے ہیں اور انکا سارا ڈیٹا ایک ذرے برابر یا اس بھی کمتر سائز چپ میں سیو کرنا اور پھر انسان کے سامنے لا کر رکھ دینا اس رب العالمین کے لئے کیا مشکل ہے۔۔

سورہ کہف کی آیت نمبر 49 میں ارشاد ہوا: "اور (اس دن) نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا اس وقت تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اپنی کتاب زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری کم بختی، یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں رہی جو اس میں درج نہ کی گئی ہو۔ جو جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرے گا"۔

کسی دفتر، بنک یا بازار میں سی سی ٹی وی مانیٹرنگ ہو رہی ہو تو ہم کتنی احتیاط کرتے ہیں کسی غیر متعلقہ شے کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے لیکن یہ محدود استعداد والے کیمرے ہیں جو ایک حد سے زیادہ دور تک کام نہیں کرتے۔ ان سے تو ہم ڈرتے ہیں لیکن رب العالمین سے نہیں ڈرتے جو پردہ غیب میں رہتے ہوئے ہر لمحہ ہماری مانیٹرنگ کر رہا ہے شاید اس لئے کہ ہمارا غیب پر ایمان ہی بہت کمزور ہے۔

Check Also

Ayaz Melay Par

By Muhammad Aamir Hussaini