Sex, Neend Aur Bhook
سیکس، نیند اور بھوک
ہمارے معاشرے کے کئی المیے کئی پہلو ہیں جن میں سے ایک جلد بازی بھی ہے جس کی بدولت ہم پاکستانی بنا کسی تحقیق کے کسی بھی مسئلے کے متعلق فیصلہ صادر کر دینا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔
مسئلہ فیصلہ صادر کر دینا ہرگز نہیں ہے مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم لوگ یہ چاہتے ہیں کہ یہ عوام ہمارے بتائے گئے اس فیصلے کو من و عن تسلیم بھی کرے اور یہ حکومت ہمارے فیصلے یعنی ہماری ذاتی رائے کو ملکی سطح پہ سراہے اور ہماری اس رائے کو اس مسئلے کا حتمی حل سمجھتے ہوئے ملکی آئین کا حصہ بھی بنا ڈالے(طنزاً)۔
ہر آدمی اپنا ایک الگ سچ ہاتھ میں پکڑے پھر رہا ہے۔ سبھی اپنے اپنے سچ کے ساتھ ہیں لیکن حقیقی سچ کا ساتھ کوئی نہیں دے رہا یا یوں کہہ لیں کہ کوئی دینا ہی نہیں چاہتا۔
ہمارے ملک میں جب بھی کسی کے ساتھ کوئی ریپ یا زیادتی کا واقعہ پیش آتا ہے یا نیوز چینلز والے ایسے سانحات کو کوریج دیتے ہیں تو اکثریت کی رائے کے مطابق عورت ذات قصور وار ٹھہرائی جاتی ہے۔ یعنی جو کچھ بھی ہوا مرد اس سے بری الزمہ ہے۔ وہ اپنی جگہ ٹھیک ہے۔ سارا قصور عورت ذات کا ہے۔
یہ لوگ وکٹم بلیمنگ پہ یقین رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ یعنی یہ کہہ لیں کہ ان کے نزدیک کسی بھی طرح کا گناہ، غلطی اور جرم کرنے والے کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ اِن کی نفسیات کے مطابق، اگر آپ اپنا جسم لیکر باہر گھومیں گے تو قاتل لوگ تو اسے کاٹیں گے ہی کاٹیں گے۔ اگر آپ اپنا موبائل یا زیور وغیرہ پہن کر باہر جاؤ گے تو چور تو چوری کرے گا ہی۔ سمجھ گئے ناں، یعنی سارا قصور صرف اور صرف آپ کے وجود کا ہے۔ یعنی نہ آپ کا وجود ہوگا اور نہ ہی آپ نقصان اٹھائیں گے۔
اب آتے ہیں دوسرے نکتے کی طرف۔ یہ ایک اٹل قانون ہے کہ فطرت، تربیت پہ بھاری ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ ایک بلی کو تربیت دیتے ہیں کہ وہ کسی کمرے یا میدان میں ایک جگہ سے دوسری جگہ ناچتے کودتے ہوئے یا کوئی عجیب و غریب سی حرکت کرتے ہوئے جائے گی اور آپ بلی کو یہ تربیت کئی سالوں سے دے رہے ہیں تو آپ کو اپنی تربیت پہ یقین بھی بہت ہو جاتا ہے۔ جبکہ سچ یہ ہے کہ تربیت فطرت کو اور بنیادی خمیر کو نہیں بدل سکتی۔ اب اس قانون کو پرکھنے کے لیے کہ آیا تربیت فطرت کو مات دیتی ہے یا نہیں آپ بلی کو کمرے میں چھوڑتے ہیں کہ وہ ناچ کود کرے اور عین اسی لمحے جب آپ ایک چوہے کو وہاں چھوڑتے ہیں تو آپ حیران رہ جاتے ہیں کہ بلی اپنی سالوں کی تربیت بھول کر چوہے کے پیچھے لپک پڑتی ہے۔ یہ فطرت ہے جو کہ کبھی نہیں بدلتی۔
سیکس، نیند اور بھوک یہ انسان کی بنیادی ضروریات ہیں۔ ایسی ضروریات کہ جن کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا یا یوں کہہ لیں کہ ان تینوں چیزوں میں سے کسی ایک چیز کی بھی عدم دستیابی انسان کو جنونی حد تک پاگل کر سکتی ہے۔ یہ تینوں چیزوں کو قابو کرنا انسان کے بس سے باہر ہے۔ تو جب انسان کو کھل عام ایسی کوئی چیز ملے گی تو وہ آپے سے باہر ہوگا ہی ہوگا کیونکہ ایسا کرنا اس کی فطرت میں شامل ہے۔ تو اس حوالے سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسی لیے ہی قرآن میں شرمگاہوں کی حفاظت کا، پردے کا اور نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ انسان ان گناہوں سے بچ سکے۔ اگر اس چیز کو قابو کرنا اتنا آسان ہوتا تو نظریں نیچی کرنے کا، شرمگاہوں کی حفاظت اور پردے کا حکم کبھی نہ ہوتا۔
دیکھا جائے تو نہ عورت پردہ کر رہی ہے اور نہ ہی مرد نظریں نیچے کرنے کے لیے راضی ہو رہا ہے تو پھر جب یہ دونوں چیزوں پہ ہی عمل نہیں ہوگا تو نقصان تو اٹھانا ہی پڑے گا اور قصور وار صرف ایک نہیں بلکہ دونوں فریق ہی ٹھہرائے جائیں گے۔
اب آتے ہیں اس مسئلے کے تیسرے اور آخری نکتے کی طرف۔
معاشرے اصولوں اور قوانین سے تعمیر ہوتے ہیں۔ جہاں کوئی قانون نافذ نہیں ہوتا، اسے جنگل کہا جاتا ہے۔ معاشرے اور جنگل میں فرق ہی "قانون" کے ہونے اور نہ ہونے کا ہوتا ہے اور ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہمارا یہ معاشرہ، معاشرہ نہیں بلکہ جنگل بن چکا ہے، جہاں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور اسی وجہ سے روزانہ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اگر تو ہم ایک خوبصورت اور سکون والی زندگی گزارنا چاہتے ہیں جس میں ہر انسان آزادی اور پرآسائش زندگی گزار سکے تو اس کے لیے ہمیں اپنے بچوں کی تربیت پہ زور دینا ہوگا۔ اسلامی تعلیمات پہ عمل کرتے ہوئے اپنے بچوں کی شادیاں جلدی کرنا ہونگی۔ معاشرے کی بھلائی کے لیے آئین اور قانون بنا کر ان کی پاسداری کرنا ہوگی اور ان آئین پہ عمل کروانے کے لیے سخت سزائیں متعین کروانی ہوں گی۔ اور یہ بات تو طے ہے کہ قانون، انصاف اور سزا کے بغیر کوئی بھی معاشرہ متوازن زندگی نہیں گزار سکتا۔