Junagarh Ka Qazi, Deccan Ka Molvi
جُونا گڑھ کا قاضی، دکن کا مولوی
اِس کتاب کے مصنف رؤف کلاسرا صاحب ہیں۔ میں ان سے دو بار ملا ہوں اور دوسری بار جب انہوں نے مجھے میرے نام سے مخاطب کیا تو میں دنگ رہ گیا اور سوچنے لگا کہ یہ کس قدر تیز یادداشت کے مالک ہیں۔ میں ان کی اس خوبی سے بہت متاثر ہوا۔ اِن کی کتابوں کی بات کریں تو اندازِ تحریر عام طور پر عمیق اور توانائی سے بھرپور ہوتا ہے۔ جو پڑھنے والوں کو ایک نئی سوچ اور جستجو کی روشنی فراہم کرتا ہے۔
اِن کی تحاریر تاریخی، فلسفی، سماجی اور فنون ادب کے موضوعات سے لبریز ہوتی ہیں۔ اِن کی یہ کتاب گہرائی سے بھرپور 61 مختلف کہانیوں پر مشتمل ہے۔ پڑھتے وقت ہر کہانی ایک الگ ذائقہ اور لمس لیے ملتی ہے جو قاری کو سوندھی اور دلفریب خوشبو سے معطر کرتی ہے۔ کہانیاں مختلف زبانوں، واقعات اور حالات پر مبنی ایک ایسا ماحول بنا دیتی ہیں کہ آپ خود کو ایک جگہ بیٹھا محسوس نہیں کرتے بلکہ پوری دنیا میں سفر کرتا محسوس کرتے ہیں۔
تحاریر کی زبان ایسی رواں اور مؤثر ہے کہ جو قارئین کو کہانی کے اندر لیجاتی ہے اور اپنے تیز بہاؤ کے ساتھ سفر کرواتی ہے۔ کتاب مختلف انسانی روابط، اخلاقی مسائل اور سماجی نکات پر بھی بحث کرتی دکھائی دیتی ہے۔ مجھے اِس کتاب کی جو بات سب سے زیادہ پسند آئی وہ ہے مخلتف کتابوں کا ذکر، کلاسرا صاحب نے تقریباً درجنوں اچھی کتابوں کا ذکر کیا ہے جو کہ میری نظر میں صدقہ جاریہ ہے کیونکہ یہ ایسی معلومات ہیں جو دوسروں کے تخیل، تجسس اور علم کی پیاس کو بجھانے کے کام آتی ہیں اور کسی کی پیاس بجھا دینا نیکی کے زمرے میں آتا ہے۔
کتاب میں جہاں بےتحاشا اچھی کتابوں کا ذکر ملتا ہے وہیں پر تاریخی اور سماجی معلومات کا خزانہ بھی ہاتھ لگتا ہے۔ یہ کتاب پڑھ کر مجھے کئی ایسی باتیں پتہ چلیں جو اِس سے پہلے پتہ نہیں تھیں۔ جیسا کہ تحریر نمبر 3 "وبا کے دنوں میں محبت" میں پڑھا کہ کتے کے کاٹنے کا علاج پاسچر نے ایجاد کیا تھا، جس نے کسی نو سالہ لڑکے جوزف پر سب سے پہلے طریقہ آزمائی کی تھی، جسے کتے نے کاٹ لیا تھا۔ اِسی طرح اور بہت سا تاریخی مواد بھی پہلی دفعہ پڑھنے کو ملا جس نے حیران کیا۔
ان کی ایک تحریر "ناول کیسے لکھے جاتے ہیں" پڑھ کر احساس ہوا کہ رؤف کلاسرا صاحب آخر اِتنے اچھے اور منجھے ہوئے لکھاری کیوں ہیں؟ کیونکہ یہ اس تحریر کی شرائط پر پورا اُترتے ہیں۔ میں اکثر یہ بات کرتا ہوں کہ اگر آپ کو اچھا لکھاری بننا ہے تو آپ کو آوارہ گرد بھی بننا پڑے گا کیونکہ ایک اچھا لکھاری ڈھیر سفر کرتا ہے۔ یاد رکھیں کہ جب تک آپ سفر نہیں کرتے آپ اچھے لکھاری نہیں بن سکتے اور کلاسرا صاحب کے بہترین لکھاری ہونے کے پیچھے ان کے لمبے سفروں کی محنت پوشیدہ ہے۔ جس نے اِن کے قلم کو مزید نکھارا ہے، اِنہیں بڑا مصنف بنایا ہے۔
میں اِن کی شاید تیسری یا چوتھی کتاب پڑھ رہا ہوں اور میں پورے یقین اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ان کا لکھا صرف چند حروف یا الفاظ جوڑ کر تخلیق نہیں ہوتا بلکہ ایک ایک سطر کے پیچھے کئی گھنٹوں کی محنت اور تحقیق شامل ہوتی ہے۔ یہ جتنے اچھے لکھاری ہیں اُتنے اچھے انسان بھی ہیں۔ کسی دکھاوے کی غرض سے نہیں بلکہ فطرتاً عاجز اور نرم ہیں۔ بڑی محبت بانٹنے والے انسان ہیں۔ اللہ ان پر اپنی رحمتیں نچھاور کرے۔