Hamdardi Jatana Sikhen
ہمدردی جتانا سیکھیں
ہمدردی کے بول بڑے جادوگر ہوا کرتے ہیں اور اِس سے بڑے بڑے مسئلے چٹکیوں میں حل بھی ہو جاتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ انسانوں کی زیادہ تر پرسنٹیج ہمدردی کی بھوکی ہوتی ہے۔ کوئی بھی پیار بھرا جملہ اگلے کو چاروں شانے چت کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ہمدردی کے بول آگ پر پانی کا کام کیا کرتے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی برا نہیں ہوتا یا جان بوجھ کر برے کام نہیں کیا کرتا۔ اِس سب کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی کالا ہے تو چڑچڑا ہونے میں اُس کا قطعاً کوئی قصور نہیں ہوتا۔ لوگوں کی باتیں، حجتیں اور طعنے اُس کی طبیعت کو چڑچڑا بنا دیتی ہیں۔
اب دیکھا جائے تو وہ انسان بےقصور ہے۔ اُس کی جگہ پر کوئی بھی ہوتا تو وہ بھی بالکل ایسے ہی ری ایکٹ کرتا جیسے وہ کالا انسان کر رہا ہوتا ہے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ ہم ہمدردی کے بول سے اُسے رام کرنے کی کوشش کریں۔ کوئی بھی برا کسی وجہ سے ہوتا ہے۔ میں اگر بچھو نہیں ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں انسانوں کے ہاں پیدا ہوا ہوں۔
اگر کوئی کسی وجہ سے بدتمیزی یا کوئی اوچھی حرکت کر دیتا ہے تو خود کو اُس کی جگہ پر رکھ کر سوچیں کہ اگر میں ہوتا تو میں کیا کرتا؟ لیکن ہم سکے کے ایک ہی رُخ پر فیصلہ صادر کر دینے والے لوگ آگے سے ڈبل بدتمیزی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ چلیں مان لیا کہ اگلا غلط تھا تو پھر آپ کی جوابی کاروائی کے بعد آپ میں اور اُس میں کیا فرق باقی رہ گیا؟ اُس نے 50 فیصد بدتمیزی کی تو آپ نے تو تمام حدیں ہی پار کر دیں۔ بجائے اُس کے رویے کے پیچھے چھپی سائیکی کو سمجھنے اور ہمدردی دکھانے کے آپ تتّا توا بن گئے۔
تلخ لہجوں اور کڑے رویوں کے تیزاب کا بہترین علاج ہمدردی ہی ہوا کرتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ اُسے ہمدردی اچھی لگتی ہے۔ آپ غور نہیں کرتے کہ جب کسی چھوٹے بچے کو چوٹ لگتی ہے تو وہ بڑے شوق سے ہر ایک کو اپنے زخم دکھاتا پھرتا ہے کہ دیکھو دیکھو مجھے یہاں چوٹ لگی ہے۔ یہاں تک کہ بڑے بھی اپنے ساتھ ہونے والے ناخوشگوار واقعات توجہ حاصل کرنے کے لیے سناتے ہیں تاکہ ہمدردی لی جا سکے۔
بڑے لوگ کیسے اپنی بیماری کے متعلق بتاتے ہیں کہ جیسے اُن کے جتنی تکلیف تو پوری دنیا میں کسی نے اٹھائی ہی نہیں۔ یا ان کے جیسا بیمار تو کوئی آج تک نہیں ہوا۔ عورتیں جب بھی آپس میں ملتی ہیں تو اپنی بیماریوں کے متعلق لازمی بات چیت کیا کرتی ہیں اور دوسرا یہ کہ بیماری کو ہمیشہ بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں تا کہ زیادہ سے زیادہ ہمدردی سمیٹی جا سکے۔
ہمدردی جادو کی ایک ایسی چھڑی ہے کہ جو شیر جیسے موذی جانور کو بھی انسان کا غلام بنا دیتی ہے۔ تو پھر دیر کس بات کی، آئیں اور آج اور ابھی سے اِس عادت کو اپنانے اور اِس پہ عمل کرنے کی کوششوں کو تیز کرتے ہیں۔