Band Darwaze
بند دروازے
انسان کے خمیر میں محبت گوندھی ہے لیکن وہ دماغ کے استعمال سے نفرت ایجاد کر چکا ہے، جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اُسے کوئی اچھا نہیں لگتا۔ سب کم تر اور نیچ دکھائی دیتے ہیں۔ جذبات ایڑیاں رگڑیں بھی تو اب محبت کا پانی نہیں نکلتا کیونکہ اَنا نے اپنا الگ کنواں کھود رکھا ہے جس کی وجہ سے محبت کا پانی ناپید ہوگیا ہے۔
اپنوں کے لیے اب کوئی دروازے نہیں کھولتا، کوئی دستک دینے آ بھی جائے تو اُسے دروازے پہ بےحسی کا بڑا سا تالا لگا نظر آ جاتا ہے، پھر اُس کی ہمت ہی نہیں پڑتی کہ وہ محبت یا کسی تعلق کے توسط سے دستک دے سکے۔ اب تو اکثر دروازے بند ہی ملتے ہیں۔ ورنہ تو ایک دور تھا جب دستک کی آوازیں کانوں میں رَس گھولا کرتیں تھیں، دستک کو خوش نصیبی سمجھا جاتا تھا۔ مکین دستک کی آواز سے ہی پہچان لیا کرتے تھے کہ باہر کون آیا ہے؟
پھر آہستہ آہستہ رشتوں میں سیلن آتی گئی اور لوگ دستک دینا اور سننا دونوں بھول گئے۔ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی خواہش نے خونی رشتوں کو نگل لیا۔ وقت کی تیز رفتار گاڑی نے محبت کے احساس کو اپنے نیچے روند ڈالا۔ محبت مر گئی اور انسان زندہ ہیں اور یہی بات ہضم نہیں ہو رہی ہے کہ انسان کی سانسیں محبت کی آکسیجن کے بغیر چل کیسے سکتی ہیں۔
نفرت تو وہ کالا دھواں ہے جو سانس کی نالی سے اندر جا کر انسان کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے اور یہ کالا دھواں بڑی تیزی سے ہر طرف پھیل رہا ہے۔ اگر ایسے ہی رہا تو انسان تڑپنے لگیں گے۔ محبت کی آکسیجن کو ڈھوندیں گے مگر یہ کالا دھواں چیختا چنگھاڑتا ہوا سب کو اپنی لپیٹ میں کر لے گا۔ جب انسان مرنے لگیں گے تب احساس، ماتم کی چادر اوڑھ لے گا جبکہ بےحسی اور انا دور پرے کھڑی ہو کر ہنس رہی ہونگی۔
زندگی سے محبت کے گھنگھرو ٹوٹ جائیں تو رشتوں کے تقدس کا رقص بھی رُک جاتا ہے۔ اِس دنیا میں مکان تو بہت بن رہے ہیں مگر انسانیت نہیں بن رہی۔ ایک ہی کمرے میں رہنے والے زیادہ پڑھ لکھ گئے تو انہوں نے اپنے لیے الگ کمرے چُن لیے، وقت مزید گزرا تو گھر تک علیحدہ بنا لیے۔ دلوں میں خود غرضی پہلے گھس چکی تھی، نام نہاد جدید دور نے پیٹرول پہ آگ کا کام کیا اور سب جلا کر راکھ کر دیا۔
پھر بڑی بڑی کوٹھیوں، اور بنگلوں کے دروازوں پر گارڈز بیٹھنا شروع ہو گئے جو کسی کو دستک دینے کا موقع ہی نہیں دیتے۔ کسی دور پار کا کوئی رشتہ دار اِس طرف نکل بھی آئے تو جان پہچان سے جان چھڑا لی جاتی ہے، چوکیدار سے جھوٹ بلوا لیا جاتا ہے کہ صاحب گھر پر نہیں ہیں۔ بھلا پھر کون دستک دے؟ یہ کیسے دروازے ایجاد کر لیے ہیں ہم نے کہ جن تک پہنچنے سے پہلے ہی ہمارے ہاتھ روک لیے جاتے ہیں۔
فطرت کے خلاف جانے سے زندگی کم ہو جایا کرتی ہے۔ تتلی کو اگر مکڑی کے گھر میں رہنے کا کہا جائے گا تو وہ جلدی مر جائے گی۔ ہماری فطرت بھی کچے گھر اور دستک کی آواز میں زندہ رہنے کی ہے۔ دستک سے محروم پکے گھروں میں رہنے کا رواج اگر یونہی بڑھتا رہا تو یہ ہماری جیتی جاگتی، ہنستی کھیلتی زندگی کو سسکیوں میں بدل دے گا۔