Thursday, 21 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Bache Zarkhez Zameen Ki Manind Hote Hain

Bache Zarkhez Zameen Ki Manind Hote Hain

بچے زرخیز زمین کی مانند ہوتے ہیں

بچے زرخیز زمین کی مانند ہوتے ہیں اور تربیت بیج کی طرح۔ زرخیز زمین ہمیشہ اچھی فصل دیتی ہے۔ یعنی ہم جیسی تربیت کا بیج بوئیں گے، ویسی ہی فصل کاٹیں گے۔ ویسا ہی پھل کھائیں گے۔

بیٹی خدا کی عطا کردہ وہ رحمت ہے کہ جس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ بیٹی اللہ تعالی کی بہت ہی حسین تخلیق ہے اور اِس کائنات کا ایک اہم رشتہ بھی۔

آج کے اِس جدید دور میں بھی کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو کہ بیٹی کو پسند نہیں کرتے، اُس کی پیدائش پر راضی نہیں ہوتے۔ مبارکباد نہیں دیتے۔ لیکن کئی ایسے لوگ بھی ہیں جو دعائیں مانگ مانگ کر پہلی اولاد ہی بیٹی مانگتے ہیں۔ آپ اِسے فطرت کہہ لیں یا قدرت کا فیصلہ کہ مرد کی عزت، شان، اور اُس کی پگڑی کی لاج عورت کے ہاتھ میں تھما دی گئی ہے۔ وہ جب چاہے گھر والوں کی عزت کو تار تار کر سکتی ہے اور اِس حد تک عزت کی نیلامی کر سکتی ہے کہ گھر والوں کو یا تو محلہ چھوڑ کر جانا پڑ سکتا ہے یا دنیا چھوڑ کر۔

عورت کا دوسرا نام عزت ہے۔ عورت ذات کے پاس سب سے اہم چیز اُس کی عزت ہی ہوتی ہے۔ جو اگر ایک بار چلی جائے تو پیچھے عورت بھی نہیں بچتی۔ ہم موضوع سے کافی ہٹ گئے ہیں۔ دوبارہ موضوع کیطرف آتے ہیں۔

عورت کی پیدائش سے لیکر مرتے دم تک اُس کی تربیت اُس پہ اثرانداز ہوتی ہے۔ چاہے وہ خود ایک ساس، نانی یا دادی بھی کیوں نہ بن جائے۔ اُس کی حرکات اُس کی تربیت کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہیں۔

آج کل جدید دور نے جہاں ترقی کی طرف خاطر خواہ سفر کیے وہیں عورت کے دماغ نے بھی کافی راستہ طے کیا اور اُس نے کہیں اہم فیصلے کیے جن میں سرِ فہرست خود کو ماڈرن عورت میں ڈھالنا ہے۔ جو کہ ایک آزاد عورت ہوتی ہے، جسے مرد نامی کسی شے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ جو خود کما سکتی ہے، کھا سکتی ہے، اکیلے رہ سکتی ہے۔ لیکن آج کی آزاد عورت کسی مرد کی غلامی نہیں کر سکتی۔ وہ ہوٹلز میں نوکری کرتے ہوئے غیر مردوں کے آگے برتن رکھ سکتی ہے لیکن گھر پہ کسی مرد کے لیے کھانا نہیں بنا سکتی کیونکہ اب عورت آزاد ہو چکی ہے۔ وہ قید خانے یا بیوی کے رشتے میں پڑنے والی ذمہ داریوں کی جیل نہیں کاٹ سکتی۔

اگر شادی کرنی بھی پڑ جائے تو وہ مرد کے ساتھ برابری چاہتی ہے۔ مرد سے کسی صورت بھی خود کو کمتر نہ سمجھ سکتی ہے اور نہ مانتی ہے۔

ٹی وی پر ایک عورت کا انٹرویو سن رہا تھا، وہ کہہ رہی تھی کہ مجھے نہیں پتہ کہ میرے شوہر کے جوتے کہاں پڑے ہوتے ہیں۔ یعنی وہ بطور بیوی اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہے۔

اِسی طرح بعض والدین بڑے فخر سے بتا رہے ہوتے ہیں کہ ہماری بیٹی کو نہ تو انڈہ بنانا ہے اور نہ ہی چائے۔ بیٹی کے شوہر یا اُس کے سسرال والوں کے ساتھ ناروا سلوک رکھنا، اُن پہ خود سے کم تری کا احساس دلاتے رہنا یا کسی بھی طرح کے طنز و طعنوں کی رسم کو ادا کرتے رہنے سے والدین گاما پہلوان نہیں بن رہے ہوتے بلکہ اپنی بیٹی کے گھر کی دیواریں خود ہی کھوکھلی کر رہے ہوتے ہیں۔

ساس اگر بہو سے لڑتی ہے تو بےشک وہ ساس بن چکی ہے، سوال اُس کی تربیت پہ آئے گا۔ بہو ساس کے آگے بدتمیزی کرتی ہے تو اُس کی تربیت کے ذمہ دار والدین سے سوال بنتا ہے کہ آپ نے بیٹی کو صرف پالا ہے یا تربیت بھی کی ہے۔

آج کل گھر ٹوٹنے کی ایک وجہ بیٹی کی تربیت بھی ہے۔ یہ ایک اہم ذمہ داری ہے جو کہ والدین اگر پوری نہیں کرتے تو وہ اپنی اولاد کے خود دشمن ہیں۔ بیٹی کو سکھایا جائے کہ جیسے وہ اپنے والدین کی عزت کرتی ہے ویسے ہی ساس سسر کی بھی کرے۔ اپنے شوہر کا خاص خیال رکھے، اُس کی پسند، نا پسند کو سمجھے، یاد رکھے اور دو باتوں پر لازمی عمل کرے۔

نمبر ایک۔ شوہر کے من پسند کھانے بنائے۔

نمبر دو۔ شوہر کے لیے خود کو سجایا سنوارا کرے۔

کسی بھی کامیاب شادی کے لیے یہ دو پوائنٹ بہت ہی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔

بیٹی کی تربیت والدین کا اولین فرض ہوتا ہے۔ اُن کو چاہیے کہ وہ ایسی تربیت کریں کہ معاشرہ تعریف کرے۔ بیٹی کو تمام حدود کے متعلق آگاہ کیا جائے خواہ وہ اسلام سے related ہوں یا معاشرتی۔ کیونکہ میرے نزدیک ایک بیٹی کی بہترین تربیت پورے معاشرے کے سدھار کا باعث بنتی ہے۔

Check Also

Social Media Aur Nafsiyati Bohran

By Sajjad Naqvi