Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Bhatti/
  4. Aap Ke Paas Kya Uzar Hai?

Aap Ke Paas Kya Uzar Hai?

آپ کے پاس کیا عذر ہے؟

ہمارا سب سے بڑا المیہ ہی یہی ہے کہ ہم کچھ کر دکھانے کی جستجو ہی نہیں رکھتے۔ ہماری کوشش بھی یہی ہوتی ہے کہ ہمارا کام کوئی دوسرا ہی کر دے۔ ہمیں سست روی اور کاہلی کی ایسی بھیانک بیماری چمٹ چکی ہے کہ جس سے چھٹکارا ہمیں خود بھی ناممکن لگتا ہے۔ اور جب بھی کوئی مشکل گھڑی آتی ہے تو سارے الزام وقت اور حالات پہ ڈال دیتے ہیں، عذر کی ایک لمبی فہرست ہر وقت ہمارے پاس موجود ہوتی ہے جس کی بدولت ہم کام نہ کرنے کے اور مصیبت کا مقابلہ نہ کرنے کی وجوہات بتا دیتے ہیں۔

جب کسی تکلیف سے سامنا ہو جائے تو فوراََ خدا کے آگے گِلے شِکووں کی پٹاری کھول کے بیٹھ جاتے ہیں جبکہ

(الله کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ سورہ بقرہ: 286)

میں خود جب کسی کو معذور، بے بس اور پریشانی کے عالم میں دیکھتا تھا تو سوچتا تھا کہ یہ کیسے زندگی بسر کریں گے؟ ان کے ماں باپ کو کیا کیا تکلیفیں سہنی پڑیں گی ان کی پرورش کے لیے۔ مگر میں ناعقل خدا کی حکمت کو بہت بعد میں سمجھا جب میں نے اس پہ مطالعہ شروع کیا۔

(اور اپنے رب کی رحمت سے کوئی مایوس نہیں ہوتا سوائے گمراہ لوگوں کے۔ ال حجر: 56)

ہمارا روز ایسے لوگوں سے سامنا ہوتا ہے جو یتیم، مسکین اور حالات کے مارے ہوتے ہیں، جنہیں دیکھ کے ہمیں لگتا ہے کہ وقت اور حالات ان کے لئے سازگار نہیں ہونگے اس لئے یہ زندگی ان کے لئے مفلوج ہو کے رہ جائے گی۔ مگر نہیں دنیا میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جو ان یتیم، مسکینوں سے بھی کئی گناہ زیادہ تکلیفوں میں تھے ان سے زیادہ بے بس تھے۔ جنہوں نے اپنی ہر معذوری کو اپنی طاقت بنا کے وقت اور حالات کی سیڑھی پہ قدم رکھتے چلے گے اور دنیا کو یہ ثابت کر دکھایا کہ اصل میں ذہنی مفلوجی ہی اس دنیا کی سب سے بڑی بیماری ہے۔ اگر آپ کے عزائم پختہ اور ارادے مضبوط ہوں تو آپ آنکھوں کی روشنی کے بِنا بھی دنیا جیت سکتے ہیں اور معذور ہو کے بھی دنیا کے بہترین سائنسدان بن سکتے ہیں۔

سٹیفن ہاکنگ۔ Stephen Hawking

سٹیفن ہاکنگ جسے دنیا کی لاعلاج بیماری "موٹر نیوران ڈیزیز" نے آ گھیرا تھا، وہ جو صرف وہیل چیر تک محدود ہو کے رہ گیا تھا۔ وہ صرف پلکیں جھپکا سکتا تھا مگر اس کے ارادے دنیا جیتنے کے تھے اور حوصلے پہاڑوں سے بھی بلند۔ کیمبرج یونیورسٹی نے اس کے لئے ایک اسپیشل قسم کا کمپیوٹر تیار کیا جو کہ سٹیفن کی پلکوں کی زبان سمجھتا تھا جو کہ پھر ترجمہ کر کے ان کو الفاظوں میں ڈھال دیتا تھا۔ اس نے بیس کے لگ بھگ ایوارڈز جیتے اور کئی کتابیں لکھیں۔ بلیک ہولز کی تھیوری بھی اس نے ہی پیش کی تھی، آئین سٹائن کے بعد اسے ہی بہترین سائنسدان مانا جاتا ہے۔ سیکھنے والوں کے لئے اس میں سبق ہیں کہ اگر کچھ کرنے کا جذبہ ہو تو آپ پلکیں جھپکا کے بھی دنیا کو بہت کچھ دے سکتے ہیں۔

نک وجکک۔ Nick Vuijcic

نک وجکک کی جب پیدائش ہوئی تو اس کی ماں اسے دیکھ کے بہت روئی کیونکہ نِک بغیر ٹانگوں اور بازوں کے اس دنیا میں آیا تھا۔ یہ واحد بچہ تھا جس کی پیدائش پہ ماں باپ خوش نہیں ہوئے تھے، ڈاکٹر بھی حیرت میں تھے کیونکہ سائنس بھی ان کو کوئی جواب دینے سے قاصر تھی۔ سب اس کا مذاق اڑاتے تھے اس پہ باتیں کَستے تھے، اندازہ لگائیں کہ نِک کے لئے شروعاتی زندگی کس قدر عذاب رہی ہوگی مگر اس نے تہیہ کر لیا تھا کچھ کر دکھانے کا، زندگی سے جنگ جیتنے کا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ لوگوں کو اب وہ نہیں اس کی کامیابیاں جواب دیں گی۔

نک عالمی تنظیم life with out limbs کا بانی ہے اور ایک موٹی ویشنل کمپنی attitude is atitude کا سربراہ بھی ہے۔ اس کے یہ ادارے دنیا کے معذور افراد کو بہترین زندگی گزارنے اور نئی امید کے ساتھ جینے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں۔ نِک نے کئی لوگوں کی زندگیاں بدل ڈالیں۔ نک کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ آپ کی زندگی میں چاہے لاکھ رکاوٹیں آئیں مگر آپ اندر سے مضبوط ہیں تو آپ ان مشکلوں کا سینہ چیر سکتے ہیں اور جو بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں اسے آپ سے کوئی بھی چھین نہیں سکتا ہے۔

اروما سنہا۔ Aruma Sinha

وہ غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی، وہ سکول میں پڑھائی کی نسبت دوسرے پروگراموں میں زیادہ حصہ لیتی تھی۔ کھیل کود میں اسے زیادہ دلچسپی تھی۔ جب بھی وہ میدان میں کھیلتی تھی تو لوگ اُس پہ جملے کستے تھے، محلے والے اسے اچھا نہیں سمجھتے تھے مگر اس کی فیملی اسے سپورٹ کرتی تھی۔ باپ کی موت کے بعد نوکری کے لئے وہ ٹرین میں سفر کر رہی تھی کہ کچھ غنڈوں نے اس کے گلے کی چین چھیننے کے لیے اسے چلتی ریل گاڑی سے دھکا دے دیا اور وہ دوسری طرف سے آتی ریل گاڑی سے ٹکرا کے دونوں پٹڑیوں کے بیچ میں گر جاتی ہے اور اس کی ایک ٹانگ کٹ جاتی ہے۔

وہ ساری رات ایسے ہی چیختی چلاتی ہے مگر کوئی بھی اس کی مدد کو نہیں آتا۔ رات بھر چوہے کیڑے مکوڑے اس کے زخمی جسم کو نوچتے ہیں۔ کیا آپ اس اذیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں؟ اروما بتاتی ہیں کہ لگ بھگ 49 ٹرینیں گزرتی ہیں مگر کوئی بھی اس کی مدد کو نہیں آتا۔ صبح قریبی گاؤں کے لوگ اسے دیکھتے ہیں اور ہسپتال لے کے جاتے ہیں جہاں اس کی ایک ٹانگ کو بِنا بے ہوشی کے کاٹ دیا جاتا ہے۔ کس قدر درد اور اذیت سے گزری ہوگی اروما لیکن وہ سمجھ چکی تھی کہ اس کی زندگی سے لڑنے کی جنگ شروع ہوگئی ہے۔

اس نے مایوسی، بے بسی اور ناکامی کو کسی دلدل میں پھینک دیا اور پھر وہ ایک نیا عزم ایک نیا مقصد لے کے ہسپتال سے گھر آتی ہے۔ ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر، ایک ٹانگ مصنوعی اور بدن زخموں میں چور اگر کچھ ٹھیک تھا تو اس کا عزم اس کے پختہ ارادے۔ اس نے ٹھان لیا ہوتا ہے کہ اسے اب ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنی ہے۔ اس کے لیے وہ بچھن در پال سے ملتی ہے اور اسے اپنے ارادوں سے آگاہ کرتی ہے تو بچھن در پال اسے کہتی ہے

"کہ تم نے ماؤنٹ ایورسٹ سر کر لیا ہوا ہے اب تو بس لوگوں کو تاریخ بتانی باقی ہے۔ "

پریکٹس کے دوران اس کے جوتے خون سے بھر جاتے مگر ہمت اور بڑھ جاتی، اس نے دل ہی دل میں شکست کو گڈ بائے کہہ دیا تھا اور پھر دن رات کی مسلسل محنت اور جذبے کی بدولت آخر کار اروما سنہا نے اکیس مئی 2013 کو ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کا اعزاز اپنے نام کر لیا۔ وہ دنیا کی پہلی معذور لڑکی تھی جس نے ماونٹ ایورسٹ کو سر کیا وہ بھی صرف 26 سال کی عمر میں۔ ایسی کئی مثالیں ہیں جہاں لوگوں نے وہ کچھ کر دکھایا جہاں عقل نے گھٹنے ٹیک دیے۔

اگر آپ کے اندر کچھ کر دکھانے کا لاوا ہے تو وہ ہر ذہنی بیماری، عذر، بہانے، رکاوٹوں اور مشکلوں کو جلا کے راکھ کر سکتا ہے۔ بس یہ آپ پہ منحصر ہے کہ آپ اپنی محنت، اپنی لگن، اپنے جذبوں کی حدّت سے لاوے کو حرارت دیتے رہیں پھر آگے دیکھیں لاوا کیا کیا کرتا ہے۔ کیونکہ خدا کبھی بھی کسی کی محنت کا پھل اپنے پاس نہیں رکھتا۔

اب آپ سوچئیے کہ آپ کے پاس کیا عذر ہے کچھ نہ کرنے کا؟

Check Also

Muaqaf Ki Talash

By Ali Akbar Natiq