Saturday, 05 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Awais Haider
  4. Waqar e Zeest Bar Insaf e Zeest

Waqar e Zeest Bar Insaf e Zeest

وقارِ زیست بر انصافِ زیست

ڈاکٹر مارٹن لوتھر جونئیر نے برمنگھم کی جیل سے اپنے لکھے خط میں یہ تاریخی الفاظ رقم کیے کہ

Injustice anyway is a threat to justice everywhere..

یعنی کہیں پر تھوڑی سی بھی ناانصافی پورے نظامِ عدل کے خلاف خطرہ ھے۔ اس لئے انصاف کے پودے کو تناور درخت بنانے کیلئے ناانصافی جیسے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنا بہت ضروری ھے وگرنہ یہ رستا زخم کسی معاشرے یا قومی جسد خاکی میں انصاف کی بنیاد کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ اصل میں انصاف ھے کیا؟

بادی النظر میں کسی چیز کو اسکی حقیقی مقام یا معیار پر رکھنا۔۔ اسی لیے اسلامی نظام حیات میں عدل و انصاف کو بنیادی اور اصولی حیثیت حاصل ھے، ایک دفعہ مولائے متقیان حضرت علی کرم اللہ وجہہ اپنے دورِ خلافت میں چراغ جلا کر کچھ حکومتی امور میں مصروف عمل تھے کہ دو مقرب اصحاب آپ سے ملاقات کی غرض سے حاضر ہوئے، آپ نے انکو بیٹھنے کا اشارہ کیا، جونہی آپ کو فرصت کے لمحات میسر آئے آپ نے فوراً عمار یاسر کو کہا کہ اب دوسرا چراغ جلا دو، انہوں نے دوسرا چراغ جلا کر پہلا گل کردیا، اصحاب کرام متعجب ہوئے کہ یہ کیا ماجرا ھے۔۔

ایک صاحب نے مودبانہ پوچھا کہ سرکار چراغ کی تبدیلی میں کیا حکمت ھے وہی جلتا رہتا جو پہلے جل رہا تھا۔۔ تو امام المتقین نے فرمایا کہ پہلے میں سرکاری امور سرانجام دے رہا تھا تو حکومتی چراغ جل رہا تھا اب چونکہ میں اپنے نجی معاملات میں مصروف ہوں تو میں نے اپنا چراغ جلوایا کہ میں یہ بوجھ بیت المال پر نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ اسلاف سے وابستہ ایسی لاتعداد تابناک و سبق آموز تماثیل ہمارے اسلامی و سماجی ورثے کی اساس ہیں یہی وہ اسلامی و سماجی نظامِ معاشرت تھا جس کا قیام جہالت کی تیرگی میں ڈوبے قوم کو دنیا کا بہترین معاشرہ اور مذہب بنانے میں کارگر ثابت ہوا۔۔

یہ تاریخ کا حصہ ھے کہ کہیں پہ خلیفہ وقت مزدور کی دیہاڑی کے مطابق اجرت طلب ھے تو کہیں قاضی پابندِ مشیعتِ الہیٰ، اہلبیت و اصحاب، تابعین اور خداوند کریم کے برگزیدہ بندوں نے عدل و انصاف کو اپنی زندگیوں کا بنیادی شعار بنایا۔

کربلا کے تپتے ریگزار میں امام الشہداء سے جب جنات کے سردار نے اذنِ جہاد چاہا تو امام وقت نے انصاف کے اسی آفاقی اصول کے تحت یہ کہہ کر مدد لینے سے انکار کردیا کہ ایک جن کا (جو کہ نہ نظر آنے والی مخلوق ھے) ایک انسان سے جنگ کرنا اصولِ فطرت اور عدل کے معیار کے منافی ھے۔

یہی وہ پختہ معیارِ ایمان و انصاف تھا کہ جس نے شیخ عبد القادر جیلانی کے والدِ محترم کو بھوک کی شدت اور عجلت میں کھائے گئے سیب کا جانگسل کفارہ ادا کیا اور وہ عرب کے صحراؤں میں آٹھ آٹھ انسو روئے مگر آپ نے خوشنودی خدا کی خاطر ہر مشکل کو سہل جانا اور بالآخر ثمر بار ہوئے۔

قارئین! ناچیز کوئی مذہبی جنونی یا کوئی عالم ذات تو ہوں نہیں میرا استخراج فکر فلسفہ اور کیمسٹری ھے مگر یہ حقیقت ھے کہ جب کبھی مطالعہ کے لیے فرصت ملے تو میں تاریخ اسلام اور فلسفہ انسانیت پر لٹریچر ضرور پڑھتا ہوں۔۔

عدل و انصاف کا راستہ بظاہر بڑا مشکل اور پرخطر نظر آتا ھے مگر جس بندے کی تربیت اور تخلیق میں مشیت الہیٰ کی خوشنودی کا حصول ہو اسکے لئے یہ راستہ بڑا سہل ھوتا ھے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ تلاش رزق میں سرکردہ ایک محنتی و ناپرساں بچہ اپنی ضرورت کو بالائے طاق رکھ کر آپکی جیب یا ہاتھ سے گرنے والے پیسوں یا نقدی وغیرہ کیطرف فوراً آپکو متوجہ کرے گا کہ "انکل آپکے پیسے گرے ہیں اٹھا لیں" اس کے برعکس کبھی ایسا بھی ہوتا ھے کہ ایک بڑے آفس میں بہترین کپڑوں میں ملبوس شخص آپکو بڑے اطمینان اور ڈھٹائی سے منہ مانگی رشوت طلب کرے گا اور دوسری صورت میں اپ کی شنوائی ہونا قطعی ناممکن بات ہے۔

یہاں یہ بات بڑی غور طلب ھے کہ بارش کی فطری لطافت میں کوئی فرق نہیں ہوتا وہ سب پر یکساں برستی ھے، سِیپ کے منہ میں بارش کا قطرہ گوہر جبکہ سانپ کے منہ میں وہی بارش کا قطرہ زہر بنتا ھے، جیسا کسی کا ظرف ھو وہ اسی کے مطابق ردعمل دے گا "فکر بکس بقدر ہمت و اوست"۔۔ ہاں مگر حیثیت بدلتی رہتی کبھی وہی غریب والا بچہ بادشاہ بن سکتا اور کبھی وہی آفس میں بیٹھا افسر سلاخوں کے پیچھے بھی جاسکتا مگر فطرت نہیں بدلتی کیونکہ فطرت کا تعلق تربیت سے ھے، آپکی تربیت بتائے گی کہ آپکی پرورش ہوئی ھے یا آپکو محض پالا گیا ھے، ایک بچے کی اچھی پرورش کا اثر آنے والے ایک مکمل خاندان کی بنیاد بنتا ھے اور پرورش میں عدم دلچسپی آنے والی نسلوں کے لیے بصورت بگاڑ۔۔

آج کل ہماری رہائش نور پور شاہان المعروف بری امام سرکار ھے کیونکہ شمالی اسلام آباد کے لوگوں بالخصوص ملازمین کیلئے دستیاب سفری سہولیات کے باعث یہ جگہ نہایت موزوں اور مناسب ھے، ہمارے گھر کے داخلی دروازے کے ساتھ اندرونی طرف ایک بڑا جامن کا درخت ھے، آجکل چونکہ جامن کا سیزن ھے اور مزاجاً اس درخت کا پھل بھی بڑا خوش ذائقہ ھے مگر ہم کو کھانا نصیب نہیں ہوا، اسکی یہ وجہ نہیں کہ مالک مکان پھل اتار کر لے جاتا بلکہ محلے کے بچے اور لوگ دیواریں اور چھت پھلانگ کر جامن کا پھل تو کجا درخت کی ٹہنیاں تک توڑ کر لے جاتے ہیں، شام کو جب ہم واپس آتے ہیں تو یقین جانئے ہمارا گھر کسی میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا ہوتا ھے، پتھراؤ سے کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹنا تو معمول کی بات ھے۔ اب بندہ کس سے جھگڑے؟

مجال ھے کہ محلے کے شریر بچوں یا لوگوں کو ذرہ بھر بھی کوئی شرم یا ندامت کا احساس ہو۔ کوئی بتائے یہ بچے بڑے ہوکر کیا بنیں گے؟ جو والدین اپنے بچوں کی ایسی حرکات سے رو گردانی کرتے ہوں کیا وہ جو اپنی نسل کے ساتھ نا انصافی کے مرتکب نہیں ہو رہے؟ اور وہ کیسے انصاف پر مبنی معاشرے کو استوار کریں یا کرائیں گے؟ یہ رویے سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ یہی حالتِ زار سلطنت خداداد کی بھی ھے، جس عظیم ہستی یعنی قائدِاعظم نے اس ملک کے عوام کی اخلاقی، قانونی و آئینی تربیت کرنا تھی اسکے سانحہ ارتحال کے بعد اس ملک کو بھی محض پالا ہی گیا ھے، ہر کوئی اس ملک کے اثاثوں کو شیر مادر سمجھ کر ڈکار رہا ہے۔ کوئی شرمندگی نہ ندامت نہ کوئی ملال بس لٹو تے پھٹو۔۔

ہمارا معاشرہ بے حسی، ناانصافی اور بے توقیری کی آماج گاہ بن چکا ہو، جس کی تربیت میں اسکے زعماء مخلص نہیں تو اس معاشرے سے آپ کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟ جس ہاتھ کو چوری کرنے پر ہمیں کاٹنا تھا ہم نے اس ہاتھ کو سربلند کردیا ھے، جس جرم کی نفی کرنا تھی اسے جمع کردیا ھے، جس چراغ کو جلانا تھا اسے بجھا دیا ھے، جس درخت کی نگہبانی کرنا تھی اسکو جڑوں سمیت کھا گئے ہیں، جس ضمیر کو جگانا تھا اسے سلا دیا ھے۔ جس شخص یا قوم کا ضمیر سوجائے یا وہ ضمیر کا سودا کرلے تو اسکا خمیازہ پھر سالوں کے بجائے صدیوں پر محیط ہوتا ھے۔

اب سوال ھے کہ ضمیر کیا ھے کیونکہ یہی وہ انسانی معیار ھے جس کی بازپرس خداوندِمتعال کو کھرے کھوٹے کی پرکھ مطلوب ھے، یہی وہ اصل عدالت ھے جو رب العالمین نے ہر انسان کے اندر متعین کردی ھے، آپ کوئی جرم کرکے بھلے دنیا کی ہر عدالت سے سرخرو ہو جائیں مگر اپنے ضمیر کی عدالت میں آپ مجرم ہی رہیں گے کیوں کہ آپ کا ضمیر آپکو ہر لمحہ بتائے گا کہ آپ نے جرم کا ارتکاب کیا ھے، اس لئے خود سے ضمیر کا رشتہ نہ ٹوٹنے والا ہوتا ھے، اچھائی اور برائی کی تمیز اور حلال و حرام جیسی چیزوں میں فرق بظاہر آپکو دینی و دنیوی اخلاقی معیارات سے پتا چلتا مگر اصل مقامِ معرفت آپ کا دل اور آپکا باطن ہی ھے اسی لیئے کہتے ہیں کہ جس کا ضمیر بِک جائے یا مرجائے وہ انسانیت کی معراج سے معزول ہو جاتا ھے۔

انسان کو تمام مخلوقات پر تخلیقی سبقت اسی شعور اور ضمیر کی وجہ سے دی گئی ھے، اکثر لوگ مجھے کہتے ہیں آپکی فلاں زمین بڑی قیمتی تھی آپکے والدین نے بیچ دی مگر میں خداوند کریم کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میرے والدین نے محض زمین بیچی مگر اپنا ضمیر نہیں بیچا، زمین اور یہ مال و زر تو پھر بھی مل جاتے مگر ضمیر کی دولت پھر نہیں ملتی، ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہونے کیلئے عدل کو خود اپنی ذات اور اپنے بچوں کی تربیت کا بنیادی حصہ بنائیں چراغِ زیست کی روشنی کبھی مدھم نہیں ہونے پائے گی۔

Check Also

Mazeed Jhoot Boliye

By Rao Manzar Hayat