Saturday, 05 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Awais Haider
  4. U Turn

U Turn

یو ٹرن

محبت کے اعتبار سے ہر باپ یعقوب ہے اور حُسن کے لحاظ سے ہر بیٹا یوسف ہے، انفرادی حیثیت میں ہر بیٹے کا پہلا آئیڈیل اس کا باپ ہی ہوتا ہے جسے وہ اپنے کردار و گفتار میں نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو کہ اک فطری حقیقت ہے، بھائیوں اور گھر میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے زیادہ لاڈ پیار ملا، فرصت کے لمحات والد صاحب کی ہم نشینی میں گزرتے، یا دادا حضور کے ساتھ بیٹھک میں بزرگوں کی خوش گپیاں اور حالات حاضرہ وغیرہ سننے کا شوق رہتا۔

والدِ گرامی صرف نام کے "نواب" نہیں بلکہ عادات و خصائل کے بھی نواب ہیں باالخصوص مجھے وہ ہمیشہ بالائے خاطر رکھتے جو کہا وہ ہوگیا جو مانگا وہ مل گیا۔ زندگی کی تقریباً ہر جائز سہولت و آسائش میسر تھی، 2009ء میں گریجوایشن کا آغاز ہی تھا کہ پہلے دادا اور کچھ عرصے بعد تایا جان کا وصال ہوگیا دونوں اپنی اپنی جگہ گھر کے سربراہ اور کفالت کنندہ تھے، گھر کی مکمل ذمہ داری اب والد محترم کے کندھوں پر آ گئی تھی، گریجوایشن کے بعد جب فارغ التحصیل ہوا تو اس وقت کے کافی صاحبِ اختیار احباب نے والدِ گرامی سے میری جاب کے حوالے سے بات چیت کی۔

مگر میرا کوئی خاص ردعمل نہ دیکھ کر انہوں نے بھی کبھی مجبور نہیں کیا۔ وقت گزرتا گیا اور کچھ عرصے بعد مجھے محسوس ہوا جیسے گھریلو ذمہ داریوں اور تایا جان کی بے وقت موت نے والدِ گرامی کو بوڑھا کر دیا ہو، دوسری طرف گھر میں جوان بیٹا ہو یا بیٹی والدین کے لیے لمحہ فکریہ ہوتے ہیں لہٰذا میں نے بدلتی صورتحال کے تناظر میں والدِ گرامی کا عملی میدان میں ساتھ دینے کا تہیہ کر لیا، حکومتوں کے رد و بدل اور بڑھتی بےروزگاری کی وجہ سے میں کسی بھی ملازمت کے حصول میں بارہا کوششوں کے باوجود ناکام رہا۔

ایک دن بڑے بھائی کے کسی دوست کے پاس دبئی کے ورک ویزوں کی خبر ملی، بھائی کے توسط سے بڑی منتوں مرادوں کے ساتھ کہ مجھے دبئی جانا ہی جانا ہے ایک خطیر رقم کے عوض ویزا حاصل کیا اور اپنی نئی منزل کی جستجو میں گردِ سفر ہوا، آنکھوں میں ترقی و خوشحالی کے خواب لیے عرب کی گرم تند و تیز ہوا اور تلخیوں کا سامنا کرنے کیلئے میں ذہنی طور پر تیار تھا۔ "دبئی پولیس کے زیرِ نگرانی کام کرنا ہوگا، بہترین رہائش بمعہ کھانا، اکیس سو درہم تنخواہ، سال بعد چھٹی اور دیگر مراعات کی روداد" مجھے ہواؤں میں لیے ہوئے تھی۔

خیر وہاں پہنچا دوسرے ساتھیوں سے ملاقات ہوئی، ایک اپارٹمنٹ میں ہمیں شفٹ کیا گیا تقریباً تین یا چار دن بعد ہمارا کفیل بیٹی کی بیماری کا بہانا بنا کر پاکستان آ گیا جو غالباً دو ماہ بعد ہمارے بارہا اصرار پر واپس دبئی وارد ہوا، ابھی وہاں کے کاغذات وغیرہ کی تصدیق کا عمل جاری تھا کہ کسی معاملے کے پیشِ خیمہ ہمارے کفیل کو دبئی حکومت نے بلیک لسٹ کر دیا، یوں ہمارے سارے خواب و خیال بدگمانی کی نظر ہونا شروع ہو گئے۔

اِدھر اُدھر کے دھکے، انتہائی کم داموں پارٹ ٹائم چھپ چھپا کر کام کرنا، نیند اور بستر جیسے روٹھ ہی گئے ہوں، رہائش اور کھانے پینے کے مسائل وغیرہ ظاہر ہے کسی کے سہارے بھلہ کب تک پردیس میں دن گزرتے، وہاں اک مصروف زندگی ہے اپنا کماؤ اپنا کھاؤ۔ اس انہونی مگر سبق آمیز صورتحال نے جیسے عقل کی بند گرہیں کھول کے رکھ دیں ہوں، بھئی، دبئی کی دلکشی اور خوبصورتی میں تو کوئی شک نہیں یہ سب اپنی جگہ مگر بات وہی ہے کہ ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات۔

والدِ گرامی نے بھی اصرار کیا کہ واپس آ جاؤ اور مجھے بھی ادراک ہو چکا تھا کہ میں جذبات ہی جذبات میں غلط راستے کا چناؤ کر چکا ہوں مگر حالات و واقعات کے پیشِ نظر مجھ سے کوئی خاص فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا اور جو ہے جیسا ہے کی بنیاد پر کاموں میں مگن رہا، ایک شب عود بنانے کے کارخانے میں کام کر رہے تھے، کھانے کے وقفے کے دوران اخبار کا اک ٹکڑا دیکھا اور اسے پڑھنا شروع کیا۔

اخبار کے اس پیرائے میں کسی انشورنس کمپنی کے ایم ڈی کا انٹرویو تھا کہ اس نے اپنی زندگی میں کیا کچھ حاصل کیا اور کیسے کیسے عروج و زوال دیکھے وغیرہ، اس میں وہ لکھتا ہے اس نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ڈگری لی مگر تنگیِ حالات کی وجہ سے اسے کسی غیر متعلقہ فرم میں کام کرنا پڑا جو اس کے مزاج اور فطری صلاحیتوں کے بالکل برعکس تھا، کافی کوشش کے باوجود بھی وہ اس کام سے مطمعن نہیں ہو پا رہا تھا، وہ لکھتا ہے ذہن میں اک خلش اور اضطراب اسے بہت بے چین کیے ہوئے تھا۔

اک روز کسی دوست سے ملنے وہ کہیں جا رہا تھا کہ اسے راستہ بھول گیا، اک لمبی سنسان سڑک پہ جاتے ہوئے جب اسے ادراک ہوا کہ وہ غلط راستے پہ جا رہا ہے تو اسکے سامنے اک "یو ٹرن" آیا۔ مگر ساتھ ہی اس نے سوچا کہ تھوڑا آگے اور دیکھ لینا چاہیئے کیا خبر کہ یہ میرا صرف گمان ہو، تھوڑا آگے جا کر اسے یقین ہوگیا کہ وہ واقعی غلط سڑک پر آ گیا ہے مگر اب اسے اگلا "یوٹرن" لینے کیلئے تقریباً 14 کلومیٹر تک کا اضافی سفر کرنا پڑا جس سے اس کا کافی وقت ضائع ہوا اور ذہنی کوفت ہوئی۔

اس واقع کے تناظر میں اسی یو ٹرن کے واقعے کو اثاث بنا کر اس نے اپنی وہ ملازمت چھوڑنے کا اصولی فیصلہ کر لیا اور اپنی متعلقہ ڈگری اور ذہنی صلاحیتوں کے مطابق نئے سرے سے رختِ سفر باندھ لیا کیونکہ اسے یہ احساس ہو چکا تھا کہ وہ عملی زندگی میں بھی اسی طرح ایک غلط ٹریک پر جا رہا ہے۔ اس سے قبل وہ مزید وقت اور ذہنی ہم آہنگی ضائع کرتا اس نے فوراً "یوٹرن" لیا اور ہم نے دیکھا کہ وہ کامیاب ہوا، اسے بزنس فیلڈ میں ملازمت ملی اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی محنت اور لگن سے اپنی موجودہ منزل پہ آ کھڑا ہوا۔ اخبار کے اس اقتباس نے مجھے بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا جیسا کہ مجھے اک حوصلہ اور ڈائریکشن مل گئی ہو۔

اخبار کا وہ ٹکڑا جیسے آنکھوں کے سامنے اک تصویر بن گیا ہو، کافی غور و خوض کے دو آپشن میرے زیرِ غور آئے، ان دونوں میں سے مجھے بھی کسی ایک آپشن کا چناؤ کرنا تھا، ایک تھا "پیسہ" جو میں لگا کر گیا تھا اسے واپس کمانا۔ اور دوسرا تھا "وقت" جسے مجھے بچانا تھا یا باالترتیب نئے سرے سے مرتب کرنا تھا، اور میں نے دوسرے آپشن یعنی "وقت" کا انتخاب کر لیا اس ارادے سے کہ پیسہ آنی جانی چیز ہے مگر یہ وقت دوبارہ نہیں ہاتھ آنا لہٰذا جو ہوا سو ہوا اسے اب نئے سرے سے ترتیب دیا جائے، اسی ارادے کے ساتھ میں نے بھی وہاں سے وقت کی اہمیت کو گردانتے ہوئے "یوٹرن" لے لیا، دبئی کو خیر باد کہا اور واپس آ گیا۔

والد صاحب ایک بڑے قافلے کے ہمراہ لینے آئے، بڑی خوش گپیوں اور فراخدلی سے میری ڈھارس بندھائی کہ "پُتر ٹھیک کیا، یہاں کوئی اپنا کام بناؤ یا زمیندارا کرو وغیرہ" کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ محبت اور ظرف میں باپ جیسا کوئی مرد نہیں ہوتا۔ بہرحال مجھے گاؤں کے لوگوں کی کافی عجیب و غریب فرسودہ باتوں کا سامنا کرنا پڑا جو میری نظر میں روایتی قدامت پسندی کے علاوہ کچھ نہیں، مگر میرا مکمل فوکس اپنے آپشن پہ تھا کیونکہ میں دبئی سے ایک ہی چیز بچا کر لایا تھا اور وہ تھا "وقت"۔

میری سوچ کے زاویے بدل چکے تھے، کچھ کرنے کا عزم اور حوصلہ میرے اندر جوان تھا، تقریباً دو، تین ماہ کی کوششوں کے بعد مجھے اسلام آباد ایک پرائیویٹ سیکٹر میں جاب مل گئی، اکیس ہزار درہم کے برعکس محض اکیس ہزار تنخواہ تھی پر شاید مجھے یہ اکیس لاکھ لگ رہے تھے کیونکہ میرا مسئلہ معیشت کے بجائے استحکام و توازن اور ذہنی یکسوئی کا تھا، پولیس اور دیگر ملازمتوں کو ٹھکرانے والا اس چھوٹی سی ملازمت پہ یوں خوش اور مطمئن تھا جیسے کہ اسے اسی نوکری کی تلاش تھی۔

معیار اور اوقات کار کے اعتبار سے ڈیوٹی کافی سخت تھی مگر مجھے وہ بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی بارہ منٹ کی طرح لگ رہی تھی، سات ماہ بعد مجھے کمپنی کے ایک اچھے پروجیکٹ میں جگہ مل گئی جس میں اچھی تنخواہ کے ساتھ بہت سی مراعات بھی شامل تھیں اور اسی میں ابھی تک براجمان ہوں اور اسی عزم اور اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہا ہوں، بلکہ یہاں مجھے شیخ سعدیؒ کی اک بڑی حکمت آمیز اور مماثلت افروز حکایت یاد آ گئی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ

"ایک دفعہ ایک بادشاہ کہیں جا رہا تھا کہ راستے میں اسے سمندری سفر کرنا پڑا، دوران سفر جہاز کو ایک سمندری طوفان نے گھیر لیا، بری یا بحری سفر میں طوفان کا سامنا کرنا درحقیقت موت کے طوفان کا سامنا کرنے کے مترادف ہوتا ہے، سب مسافروں نے اپنے اپنے انداز میں خداوند کریم کو پکارنا اور دعائیں مانگنا شروع کر دیا، کشتی میں موجود ایک ایسا شخص بھی تھا جس نے اونچی اونچی آواز میں آہ و پکار شروع کر دی۔ "ہم سب مر جائیں گے، یہ طوفان سب کچھ لے ڈوبے گا، کشتی غرق ہو جائے گی وغیرہ وغیرہ"۔

سب نے اسے چُپ کرانے کی کوشش کی مگر وہ تھا کہ کسی کی بات سننے کو تیار ہی نہیں تھا اس آہ و زاری سے وہ اوروں کے حوصلے بھی پست کر رہا تھا، بادشاہ بھی اس صورتحال سے پریشان تھا کہ مصیبت کے اوپر مصیبت، ایک وزیر بادشاہ کے پاس حاضر ہوا اور کہا کہ بادشاہ سلامت مجھے اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے چپ کرا سکتا ہوں، بادشاہ نے اجازت دے دی، وزیر نے دو سپاہیوں کو کہا کہ اسے ایک رسی سے باندھ کر سمندر میں پھینک دو، اسے سمندر میں پھینک دیا گیا، بپھرے سمندر کی موج در موج کھاتی لہروں میں اس نے خوب غوطے کھائے یہاں تک کہ وہ بے حال ہوگیا۔

وزیر نے حکم دیا کہ اسے اب واپس کشتی میں کھینچ لیا جائے، جب اسے واپس کشتی میں لایا گیا تو وہ بڑی خاموشی سے بڑا پرسکون ہو کر چپ چاپ کشتی کے پچھلے کونے میں بیٹھ گیا، بادشاہ کو بڑی حیرت ہوئی اس نے وزیر سے پوچھا کہ اسے یہ ترکیب کیسے سوجھی؟ وزیر نے کہا کہ بادشاہ سلامت "اس شخص نے اس سے پہلے مصیبت کا صرف نام سنا تھا چکھی نہیں تھی، اب اس نے مصیبت کو عملی معنوں میں دیکھا اور چکھا ہے، اسے یہ احساس ہوا ہے کہ اس وقت اس کرہ ارض پر اس کشتی سے محفوظ جگہ کہیں بھی نہیں ہے۔ "

حاصل گفتگو یہ ہے کہ بعض غیر متوقع حالات و واقعات، مصائب و آلام انسان کو توڑنے کیلئے نہیں بلکہ اسے جوڑنے اور مظبوط کرنے کے لیے ہوتے ہیں، سمندر گہرائی کا اندازہ سمندر میں اتر کر ہی محسوس ہوتا ہے، ناکامی یہ نہیں کہ آپ ہار گئے ہیں بلکہ یہ ہے کہ آپ نے کوشش کرنا چھوڑ دی ہے، ہر ناکامی اپنے اندر کامیابی کا اک راز چھپائے ہوئے ہے جسکی کھوج لگانا شاید ہماری فطری صلاحیتوں پر منحصر ہے۔

آج میں ایم ڈی نہیں بنا اور نہ ہی کوئی بہت بڑی پوسٹ پہ ہوں، مگر جہاں ہوں بڑا خوش اور مطمئن ہوں، والدِ گرامی کے کندھوں سے کندھا ملا کر چل رہا ہوں اور انکا زورِ بازو ہوں۔ وقت بچانے کی خاطر جو "یو ٹرن" مجھے لینا پڑا وہ بڑا کارگر ثابت ہوا ہے کیونکہ میرے نزدیک کامیابی کا پیمانہ یہ نہیں کہ آپ کتنا پیسہ کما رہے ہیں بلکہ کامیابی کا درست پیمانہ یہ ہے کہ آپ اپنے کام سے کتنے خوش ہیں، وقت ایک بہترین مرہم کے ساتھ ایک بہترین اثاثہ ہے اسے درست سمت میں اپنی ذہنی یکسوئی کے مطابق استعمال کریں کامیابی اور مستقل مزاجی آپکا مقدر بنے گی۔

Check Also

Punjabi Ka Maan Akram Sheikh

By Khalid Mehmood Rasool