Main Ne Kitne Khuda Bana Daale?
میں نے کتنے خدا بنا ڈالے؟
برادرم اسد رحمان کا شعر ہے
اک خُدا نے مُجھے بنایا تھا
میں نے کتنے خُدا بنا ڈالے
پاکستانی قوم بلکہ ہجوم کی اجتماعی نفسیات کی اس سے بہتر اور خوبصورت تصویر کشی۔۔ شاید آپ کو عصری شعری منظرنامے میں کہیں نہ ملے۔۔ صدیوں سے ہمارے خمیر میں رچی ہوئی غلامی نے بیرونی حملہ آوروں اور آقاؤں کیلئے خوشامد و چاپلوسی اور دلالی کے جو مکروہ مناظر اور داستانیں اس خطہ ارض پر رقم کیں، ان کو دیکھتے اور پڑھتے ہوئے سر شرم سے جُھک جاتا ہے یہ سوچتے ہوئے کہ چند مراعات اور زمین کے کچھ ایکڑز کیلئے کوئی اپنے ہی لوگوں کی پیٹھ میں کیسے چھرا گھوپتا ہے؟
برصغیر سے انگریز کی غلامی کے بعد۔۔ ہندو نے ابتداء ہی میں نہ صرف "برٹش امپیریل ازم" کی ناجائز پیداوار جاگیرداروں اور دیگر بالادست طبقات پر خطِ تنسیخ کھینچ کر حقیقی آزادی کے ثمرات سمیٹنا شروع کردئیے بلکہ سیاستدانوں نے مدبرانہ قیادت کا حق ادا کرتے ہوئے اداروں بالخصوص فوج کو اپنی حدود میں رکھنے کیلئے بھی بڑے دلیرانہ اقدامات اٹھائے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں آج تک کسی کو مارشل لاء نافذ کرنے جرات نہیں ہوئی بلکہ آج بھارت چاند پر بھی قدم رکھ چکا ہے جبکہ ماشاءﷲ۔۔ ہم ہر سال ماہِ رمضان اور عیدین کا چاند تلاش کرنے کا مشن مولویوں کے سپرد کر نے اور خود کو تقسیم کرنے کا تماشہ دنیاء کے سامنے بنتے چلے آ رہے ہیں۔
ہم نے انگریز کی غلامی سے تو نجات حاصل کرلی مگر بدقسمتی سے اس کی "ناجائز اولاد" کی غلامی کا طوق اتار کر پھینکنے کی بجائے ان کو اپنا خدا بنا کر ہر آئے دن ان کو اقتدار و طاقت کا منبع بنانا شروع کردیا۔۔ یہ خدائی کسی ایک طبقے تک محدود رہتی تو شاید آج ہماری حالت کم از کم یہ نہ ہوتی۔۔ مگر جاگیرداری، پیر خانے و گدی نشینی، سرمایہ داری، سیاسی بتکدے، بیورکریسی، مذہبی پیشوائیت اور فوج وغیرہ کی شکل میں جتنے خداؤں کی خدائی کے ساتھ ہم نبرد آزما ہیں۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیاء تو لطف لے رہی ہے مگر یہ ہم ہی جانتے ہیں جو ہم پر گزر رہی ہے۔
گزشتہ روز بھارتی چندریان کے حوالے سے میں نے اپنا ایک شعر پوسٹ کیا
چھؤ لیا چاند اُس کے قدموں نے
تنگ مُجھ پہ زمین کِس نے کی؟
پڑوسی کی شاندار کامیابی اور اپنی اجتماعی ناکامی کے اس "مرثیہ" پر بھی کچھ لوگ۔۔ اپنے سیاسی خداؤں کو بیچ میں لے آئے۔۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔
فاروق روکھڑی کا کیا خوبصورت شعر ہے
ابلیس تیری ایک خدا سے نہ بن سکی
دیکھ میں کتنے خداؤں کی زد میں ہوں
آج ہم جتنے خداؤں کی زد میں ہیں بدقسمتی سے وہ سب کے سب ہمارے اپنے ہی ہاتھوں کے تراشیدہ ہیں۔۔ ہماری سرائیکی میں دندناتی غلامی ان بتوں کو ہرگزرتے دن اور ہر لمحہ کیساتھ مزید قدآور اورطاقتور بنارہی ہے۔۔ غالباً نیلسن منڈیلا سے جب کسی نے پوچھا تھا کہ ایک غلام قوم کی آزادی کے سفر میں سب سے مشکل مرحلہ کون سا تھا تو اس نے یہ تاریخ ساز جملہ کہا تھا کہ غلام قوم کو یہ یقین دلانا سب سے مشکل کام تھا کہ وہ غلام ہے۔۔
ہماری قسمت میں جو بھی "منڈیلا" آیا۔۔ بعد ازاں، بذاتِ خود ہم نے اُس کو ایک نئے خدا کی صورت میں دن رات ایک کرتے ہوئے پرانے خداؤں کی صف میں لا کھڑا کیا اور اس کی پوجا پارٹ سے اپنے ڈی این اے میں ناچتی تھرکتی غلامی کی تسکین کا سروسامان کشید کیا۔
ہمارے یہ سیاسی خدا۔۔ اگر ایک جمہوریت ہی کی خاطر آپس میں ایک پیج پر اکھٹے ہوجاتے تو آج آزادی کے 76 سال بعد ہمارا ملک جمہوری منزل سے ہمکنار ہوجاتا مگر افسوس کیساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ اقتدار کی ہڈی انفرادی سطح پر جس سیاستدان نامی مفاد پرست کے سامنے بھی ڈالی گئی وہ اِدھر اُدھر دیکھے بغیر اس پر جھپٹ کر اپنی دُم ہلاتے ہوئے بوٹوں کو چاٹنے لگتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں ہمارے کسی سیاسی و غیر سیاسی خدا کا کوئی قصور نہیں۔۔ یہ سب کچھ ہمارا اپنا ہی کیا دھراء ہے۔۔ کیونکہ بقول اسد رحمان۔۔ ہمیں بنایا تو ایک ہی خدا نے تھا مگر ہم نے معلوم نہیں آج کتنے خدا گھڑ لئے ہیں؟ جس کے نتائج ایک اجتماعی عذاب کی صورت میں پوری قوم بھگت رہی ہے مگر اس کے باوجود ہر کوئی اپنے ہی خدا کی حرمت پر کٹ مرنے کیلئے جتھوں کی صورت میں شمشیر بے نیام لیکر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کیلئے پاگلوں کی طرح بھاگتا پھر رہا ہے اور دین اسلام کے نام پر قائم ہونے پاکستان کو وحشستان بنانے میں اپنا حصہ ڈال کر ایک ایسی شرمناک تاریخ رقم کررہا ہے جس کا انجام تباہی و بربادی کے سواء کچھ نہیں۔
آئیے۔۔ اپنے تراشیدہ اس طرح کے ہر اس خدا کا بت پاش پاش کردیں جس نے ہم سب کو قیامِ پاکستان سے آج تک ذہنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے اور ہر طرح کی سیاست و تعصب۔۔ مذھبی بہروپیت اور اغراض و مفادات سے بالا تر ہوکر اب تو اس پاکستان اور اپنی آنیوالی نسلوں کیلئے سنجیدگی سے سوچیں۔۔ جن کے مستقبل پر سوالیہ نشان اٹھنے لگے ہیں۔