Pakistan Ke Siasatdan Aur Awam
پاکستان کے سیاستدان اور عوام
قیام پاکستان کے بعد اور بانی پاکستان قائد اعظم محمّد علی جناح کے بعد شائد ہی کوئی ایسا سیاست دان پاکستان کی تاریخ میں گزرا ہو جس نے پاکستان کی خاطر سیاست کی ہوں۔ جو بھی ملکی سیاست میں آیا۔ اپنے نظریہ اور مقاصد کی سیاست کی، اور اپنے ذاتی نظریہ کو عوام کے درمیان پروان چڑھانے کی کوشش کی۔
پاکستان کی پچھلی 70 سالہ تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو چند سیاست دانوں کے سوا کوئی ایسا سیاست دان نظر نہیں آتا۔ جس نے خالصتا پاکستان اور پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر سیاست کو چنا ہوں۔ کسی کو طاقت کا نشہ تو کسی کو کرسی کی محبت، کسی کو عوام میں مقبوليت، تو کسی کو باب، دادا کی وراثت میں ملی جائیداد، بس یہ وه ذرائع یا شوق ہیں جو پاکستانی سیاست دانوں کے پاکستانی سیاست میں انے کے وجوہات بنے۔
اگر ان لوگوں کا مقصد واقع ہی عوام کی فلاح و بہبود اور پاکستان کی ترقی اور خوشحالی ہوتا۔ تو آج پاکستان ترقی یافتہ نہیں تو کم از کم پاکستان کا شمار ترقی یافتہ ممالک کی اس لسٹ میں ضرورں ہوتا۔ جو مستقبل میں ترقی یافتہ ہونے کے قریب ہے۔ ھمارے سیاست دانوں نے ہمیشہ سیاست کے نام پر پاکستانی عوام کو تقسیم کیا ہے۔ اپنی گندی اور گھٹیا سیاست کی خاطر عوام کو بلی کا بکرا بنایا ہے۔
آپ لوگ کسی بھی ایک پارٹی کا جلسہ اٹھا کر دیکھ لیں۔ اس میں آپ لوگوں کو یکسانیت کی بات بہت کم بلکہ نا ہونے کے برابر ملے گی۔ اور اگر بات کی جائے نفرت، تقسیم کی تو پورے جلسے میں تمام شرکاءکا اس کے اوپر ایک بھرپور لیکچر ہوگا۔
اب بات کرتے ہیں پاکستانی عوام کی، ہم وه بدنصیب قوم ہیں جو آپنے ہاتھوں سے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتے ہیں۔ اور بعد میں پھر روتے چلاتے پھرتے ہیں کہ ہائے ہمارے پاؤں کٹ گئے۔
الیکشن کے دوران اپنا ووٹ کوڑیوں کے دام بیچ کر پھر ہم مہنگائی کا رونا روتے ہیں۔ پھر ہم گلیوں چوراہوں ہوٹلوں پر بیٹھ کر سیاستدانوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ کچھ لوگ تو اپنا ووٹ صرف رشتہ داریاں دوستیاں محلے داریاں نبھانے کے لیے کاسٹ کرتے ہیں۔ اور بعد میں وہیں لوگ مظلوم بن کر حکمرانوں کے ظلم کا رونا روتے ہیں۔
اگر آج پاکستان میں مہنگائی بے روزگاری لاقانونیت نا انصافی اور ایسے ہزاروں مسائل ہیں اور اگر ان کے ذمہ دار سیاستدان و حکمران ہیں۔ تو پاکستانی عوام بھی اس میں آدھے کے برابر شریک ہیں۔ اگر واقعی ہم پاکستان میں بے روزگاری لاقانونیت نا انصافی اور اسی طرح بہت سارے مسائل کا قلع قمع چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے نظریے اور سوچ کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ووٹ کا مطلب صرف چند کوڑیوں کے دام نہیں ہے۔ بلکہ ووٹ وہ طاقت ہے جس کے بل بوتے پر ہم اپنا نہیں تو اپنی آنے والی نسل کا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ اور بطور قوم ہمیں صحیح سمت کا تعین کرنا ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالی بھی اس قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہیں کرتی۔