Neki Kar Dariya Mein Daal
نیکی کر دریا میں ڈال
"نیکی کر دریا میں ڈال" یہ اردو زبان کا ایک مشہور محاورہ ہے۔ اور اس محاورے کا ہم روز مرہ زندگی میں کسی نہ کسی موقع پراستعمال کر ہی لیتے ہیں۔ لیکن اکثر میں نے لوگوں کو دیکھا ہے۔ اس محاورے کا استعمال ان مواقعوں پر کرتے ہیں۔ جب انہیں کسی سے شکایت یا گلہ ہو۔ اور خاص کر جب لوگ کسی کے ساتھ کوئی نیکی یا بھلائی کرکے ان سے یا پھر کسی ایسے انسان سے جسے زندگی کے نشیب و فراز میں بار بار ان کی ضرورت پڑی ہو، خاص قسم کی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں۔ اور پھر امیدیں پوری نہ ہونے کی صورت میں اس محاورےکا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن جس مقصد کے لئے اس محاورے کا استعمال ہم لوگ کرتے ہیں۔ درحقیقت اس محاورے کا مطلب اور لغوی معنی اس کے بالکل متضاد ہے۔
نیکی کر دریا میں ڈال مطلب کے آپ اگر کسی کے ساتھ کوئی نیکی، بھلائی، احسان یا کسی بھی قسم کی کوئی اچھائی کرتے ہیں۔ تو اس کو یکسر بھول جائیں۔ اور اپنے دماغ کی (Memory)سے (Delete)کابٹن دبا کر ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں۔ لیکن افسوس ہمارے معاشرے میں اس قسم کی غلط روش پروان چڑھ چکی ہے۔ کہ ہم کسی کے ساتھ کسی بھی قسم کی بھلائی، اچھائی یا کسی بھی قسم کا احسان بدلے کی صورت میں کرتے ہیں۔ جو ہم مسلمانوں کے لیے شرم اور افسوس کا مقام ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں . جو ہمارے معاشرے میں ایک فیشن بن چکی ہیں۔
ہماری شادیوں کے رسموں راوجوں سے تو آپ سب لوگ اچھی طرح سے واقف ہیں۔ جو لوگ تحفے تحائف اور یہاں تک کہ کیش نقدی کی صورت میں ہزاروں روپے پیش کرتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ کچھ لوگ گھریلوں سازو سامان جو کسی بھی صورت میں ہو سکتا ہے، مدد کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔ جو کہ بہت ہی اچھی اور خوبصورت رسم اور رواج کی شکل میں اچھائی اور بھلائی ہے۔ لیکن لوگ اسے صرف رسم کی حد تک ادا کرتے ہیں۔
ابھی پچھلے دنوں میں اپنی ماں سے حال احوال اور آجکل کی جو مہنگائی ہے اس بارے میں بات کر رہا تھا۔ اچانک میری امی بولیں، ایک تو مہنگائی کی حد ہے اور دوسرا ہمارے ہاں ہر مہینے ہزاروں روپے نقد جو ہماری زبان میں (جاھنداری)بولتے ہیں۔ اس میں چلے جاتے ہیں۔ تو میں نے امی سے کہا یہ کوئی ضروری تو نہیں ہے۔ تو آگے سے میری ماں کہنے لگی نہیں بیٹا کل کو ہم نے بھی شادیاں کرنی ہے پھر ہمیں بھی تو لوگوں نے دینا ہے سب کچھ، تو میں سوائے مسکراہٹ کے اور کچھ نہ بول سکا۔
میں نے ہمارے معاشرے میں یہاں تک دیکھا ہے۔ جب کچھ لوگ حالات کی سنگینیوں کی وجہ سے بدلے کی صورت میں یہ سب کچھ دے نہیں پاتے ، پھر ہمارے معاشرے کی ستم ظریفی دیکھئے، پھر ان پر فقرے کسے جاتے ہیں۔ اور انہیں مختلف طریقوں سے طعنے دیے جاتے ہیں۔ خدارا کسی کے ساتھ بھی کوئی نیکی یا اچھائی کریں۔ تو اسےآپنے رب ذوالجلال کے کھاتے میں ڈال دیا کریں۔ کیونکہ وه رحمان سب سے بہترین بدلہ دینے والا ہے۔
یاد رکھیں کسی کے ساتھ بھلائی اور نیکی کر کے کبھی بھی احسان جتلانے کی کوشش نہیں کریے گا۔ اور اگر اسی نیت سے سب کچھ کرنا ہے۔ تو شاید نہ کرنا آپ کی حق میں بہتر ثابت ہو۔ کیونکہ آخرت میں یہی چیز آپ کے لیے تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔اس لیے آپ کے ارد گرد بہت سے سفید پوش لوگ موجود ہوتے ہیں۔ جو مستحق ہونے کی صورت میں بھی خاموشی اختیار کیے ہوتے ہیں۔ اسی خوف اور ڈر سے۔
حدیث میں آتا ہے کہ " نبی کریم ﷺ کا ارشاد پاک ہے۔ خیرات اور زکوۃ ایسے ادا کروں کہ تمہارے دوسرے ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے۔" پہلے تو اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہر کسی کو اپنے خزانوں سے عطا فرمائے۔ اور اگر اللہ تعالی نے آپ کو چن لیا ہے۔ اور آپ کے ذریعے کسی کو عطا کرنا چاہتا ہے۔ تو اس موقع کو غنیمت جان کر خاموشی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہیے۔ کیونکہ اس رحیم و کریم ذات کی رحمت کی کوئی حد نہیں۔ ہو سکتا ہے کل کو یہ چیز آپ کے لیے کامیابی کا پروانہ بن جائے۔ میری اللہ سے دعا ہے اللہ ہم سب کو شیطان کے شر سے بچائے اور ایسی تمام نیکیوں سے بچائے جن میں ریاکاری جھلکتی نظر آئے۔