Khwahishat Ya Mehangai
خواہشات یا مہنگائی
آج کے دور میں مہنگائی پوری طرح سے جوان، صحت مند اور توانا نظرآتی دکھائی دیتی ہے۔ اور تقریباً تمام طبقہ جات کے لوگ اس کی لپیٹ میں ہیں۔ چاہے وہ سرکاری لوگ ہو، کاروباری لوگ ہو یا پھر مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی کیوں نہ ہو سب مہنگائی کے آگے بے بس اور لاچار نظر آتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن کیا واقعی ہی مہنگائی اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ کہ مہنگائی کے اس جن کو قابو کرنا اب انسان کے بس کی بات نہیں۔
چلے آج سے تیس یا پچیس سال پیچھے جا کر دیکھتے ہیں، کہ مہنگائی کا یہ جن کہاں پر کھڑا تھا اور لوگوں نے اسے کس طرح قابو یا اپنے بس میں رکھا ہوا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب عقل شعور نے ہمیں اپنی آغوش میں اٹھایا۔ اور زمانے کے رسم و رواج، طور طریقوں اور اس کی چال چلن سے آگاہی کا سبق پڑھایا۔
یہ بہت ہی سادہ اور خوبصورت وقت تھا۔ کسی خاندان میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہوتا جو سرکاری ملازم ہوتا۔ وگرنہ زیادہ تر لوگ اپنی کھیتی باڑی یا محنت مزدوری کے ساتھ منسلک ہوتے۔ اور زیادہ تر افراد تو ایسے بھی ہوتے جو نوجوان اور صحت مند ہونے کے باوجود بھی بالکل فارغ التحصیل رہتے۔ لیکن پھر بھی مہنگائی کے خلاف ایسا رونا دھونا اور شوروغل نہ تھا جتنا کے آج ہے۔ اور میرے نزدیک اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ خواہشات کا جن اس وقت کے لوگوں کے مکمل طور پر بس اور قابو میں تھا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب بھی ہمارے لئے عید یا کسی بھی خوشی کے موقع پر کپڑے بنوائے جاتے تو خاص طور پر کالے رنگ کے کپڑوں کو چنا جاتا وہ اس لئے کہ تہوار کے بعد ہم ان کپڑوں کو اسکول کے لئے یونیفارم کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ جب بھی چھوٹی عید کے لیے جو کپڑے اور جوتے ہمارے لئے خریدے جاتے عید کے بعد انھیں سنبھال کر رکھ دیا جاتا بڑی عید کے آنے تک۔
گھر بہت سادہ اور مٹی کے تھے، انہیں بنانے اور ان کی مرمت تقریبا فری آف کاسٹ ہوتی تھی۔ کھانا اور کھانے کی غذائیں بھی بہت سادہ اور دیسی ہوتی تھی۔ دوپہر کے کھانے میں اکثر لسی، ڈھوڈی، پیاز، چٹنی اور دہی کا استعمال ہوتا تھا۔ اس وقت کی عورتیں بھی کافی سادہ لباس ہوتی کپڑوں کی خریداری کرتی بھی تو صرف دو سیزن میں سردی یا گرمیوں کے لیے، جو رقم درکار ہوتی وہ بھی اپنے دستکاری کے فن سے جو کماتی اپنی ضروریات پر خرچ کرتی۔
مجھے یہ بھی یاد ہے جب ہمیں سکول کے لیے جو سامان درکار ہوتا مثلا کاپیاں، تختی سلیٹ پینسل قلم وغیرہ، جو ہم سے سینئر ہوتے انہیں جب اگلی کلاس کے لئے پرموٹ کیا جاتا تو ان کے زیر استعمال جو بھی سامان وغیرہ ہوتا وہ ہم جونیئر استعمال کرتے تھے بجائے نئے خریدنے کے ہم اسی پر استفادہ کر لیتے تھے۔ اور جب کبھی پینسل وقت سے پہلے ختم یا کہیں گم ہو جاتی اور پھر نئی پنسل نہ ہونے کی صورت میں ہم بیٹری کے سل سے وہ سکہ نکال کر اسے بطور پنسل استعمال میں لاتے تھے۔ اور تختی پر لکھنے کے لیےجو قلم استعمال ہوتی تھی۔ اسے تو بازار سے خریدنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کیوں کہ تمام لڑکے خود اسے بنانے میں کافی ماہر تھے۔
گھر کا صرف ایک ہی بڑا ہوتا اور وہی کمائی کا ذریعہ ہوتا۔ باوجود اس کے پھر بھی گھر کی اور گھر کے تمام افراد کی ضروریات پوری ہوجاتی۔ یا یہ بھی ہوسکتا ہے وہ صرف ضروریات ہوتی خواہشات نہیں اس لیے مہنگائی کا جن اپنی حد میں رہتا۔ اور وقت سکون اور خوشی سے کٹتا تھا۔ جب کہ آج کے دور میں سب کچھ اس کے متضاد یعنی الٹ ہے۔ اور خواہشات میں اتنی شدت اور طلب آگئی ہے۔ کہ مہنگائی کا جن بے لگام دندناتا پھر رہا ہے۔
آج کے دور میں اگر ایک گھر میں چار فرد ہیں۔ چاروں نہیں تو تین برسر روزگار ہیں۔ لیکن اس دور کی خواہشات نے بری طرح اپنی لپیٹ میں جکڑ رکھا ہے۔ آج کی ہماری غذائیں، لباس، گھر، رہن سہن حتیٰ کہ ہمارے رسم و رواج اور طور طریقے سب ہماری خواہشات کے غلام بن چکے ہیں۔ جبکہ آج کا دور ہر لحاظ سے پہلے کے دور سے آگے ہے، پھر بھی ہم بے بس اور لاچار نظر آتے دکھائی دیتے ہیں۔
میرے خیال اور ناقص سوچ کے مطابق اس مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ ہماری لا تعداد اور نہ پوری ہونے والی خواہشات ہی ہوسکتی ہیں۔ جن کی وجہ سے ہم بے بس اور مہنگائی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللّه سب کو اپنے خزانوں سے عطا فرمائے۔ اور ایسی تمام خواہشات کی جال سے ہمیں آزاد فرمائے، جن کی وجہ سے ہم لا چار، بے بس اور مہنگائی کا رونا رونے پر مجبور ہیں۔