Zamane Ke Andaz Badlay Gaye
زمانے کے انداز بدلے گئے
آپ نے ہنر کے میدان میں بانجھ نوجوان نسل دیکھی ہے؟ ایک بار اپنے تعلیمی اداروں سے نکلنے والوں نوجوانوں کو دیکھ لیجیے۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں نوجوان تعلیمی اداروں سے نکلتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس سوائے ایک کاغذ کے پرزے جسے سند کہتے ہیں، کچھ نہیں ہوتا۔ بظاہر تو ہم سائنس بھی پڑھا رہے ہیں۔ کمپیوٹر کی تعلیم بھی دے رہے ہیں، میٹرک تک تمام مضامین موجود ہیں۔
لیکن اگر ایک میٹرک کرنے والے یا ایف ایس سی کرنے والے نوجوان کو پاس بٹھا کر چند بنیادی سوالات کیے جائیں وہ بالکل کورا نکلتا ہے۔ میٹرک تک ہمارے نصاب میں اردو، سائنس، انگلش اور حساب لازمی ہے۔ آپ میٹرک فرسٹ ڈویژن سے پاس کرنے والے کسی بچے سے اپنے ہی گھر کا رقبہ نکلوا کر دیکھیں، اس کو احاطے کا بھی علم نہیں ہوگا۔
کسی میٹرک یا ایف ایس سی پاس بچے سے کسی ادارے کو چار لفظی درخواست یا کسی رشتے دار کو خط لکھوا کر دیکھ لیں، القاب و آداب سے ہی واقفیت نہ ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام صرف سند کیوں دیتا ہے ہنر کیوں نہیں؟ ہمارے ملک میں ایک محدود اور بیکار سا نصاب ہے جو کئی دہائیوں سے رٹوایا جا رہا ہے، ہمارے ںچے جب جامعات سے نکل کر عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں۔
تو پھر ان پر انکشاف ہوتا ہے کہ بیس سالہ تعلیمی سفر میں ان کے ہاتھ سوائے سفر کی تھکاوٹ کے کچھ نہ آیا۔ یہ نوجوان جب نوکری کے لیے جگہ جگہ دھکے کھاتے ہیں تو چاہنے کے باوجود اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوسکتے، کہ ان کے پاس صرف ڈگریاں ہوتی ہیں۔ اپنے شعبے کا علم نہیں اور وہ علم بھی بس پرچے دینے تک محدود ہوتا ہے کہ تعلیم کا مقصد صرف ایک درجہ پاس کرنا ہوتا ہے اور وہ درجہ ہم یاداشت سے ناپتے ہیں۔
جس کی یاداشت اچھی ہوگی وہ پرچے کے سوالات حل کر لے گا، جس کی یاداشت ذرا کمزور ہوگی وہ فیل ہوجائے گا۔ اپنے ملک کی لائبریریوں، تجربہ گاہوں اور لیب کی تعداد معلوم کرلیں، تو آپ پر انکشاف ہوگا کہ ہمارے ملک میں بیس فیصد بھی ایسے ادارے نہیں ہیں۔ جن کے پاس اپنی ذاتی لیب موجود ہو، اور وہاں بچے پریکٹیکل اور مشاہدے کی بنیاد پر کچھ سیکھ سکیں۔
یہاں پر انجینئرنگ اور کمپیوٹر کی تعلیم بھی کتابوں سے پڑھ کر دی جاتی ہے۔ عالمی سطح پر جب ذہانت کو ماپا گیا، تو پاکستان ذہین ترین نوجوان رکھنے والے ملکوں میں تیسرے نمبر پر آیا۔ لیکن جب ہنر کا پیمانہ سامنے رکھا گیا تو بدقسمتی سے پاکستان کا نمبر 26 واں تھا۔ تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ پہلی جماعت سے لے کر کالج پہنچنے تک کتابوں کا ایک بوجھ ہے۔ جسے طالب علم کے کندھے پر مسلسل سولہ سال لادا ہے۔
سولہ سال بعد یہی بوجھ اتار کر یا تو الماریوں میں رکھ دیا جاتا ہے یا پھر ردی کے بھاو بیچ دیا جاتا ہے۔ یہ بچے جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی تو یہ ہنر کے لحاظ سے تہی دست ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک گریجویٹ نوجوان جب باہر کے کسی ملک میں جاتا ہے تو اسے وہاں پہ سیلزمین یا پٹرول پمپ پر کام کے علاوہ کوئی اچھا کام نہیں ملتا، کیونکہ اس کے پاس ڈگری ہوتی ہے۔
لیکن ہنر نہیں ہوتا، کسی اور ملک کے گریجویٹ کو دیکھ لیں وہ کسی نہ کسی کمپنی میں اعلی عہدے پر ضرور پہنچ جاتا ہے۔ انگلیوں پر گن لیجیے سائنس، انجینئرنگ، کمپیوٹر اور تخلیق کے میدان میں ہمارے نوجوان عالمی سطح پر کس قدر نامور ہوئے، اور پچھلے تین عشروں میں عالمی سطح پر کسی میدان میں خاطر خواہ کامیابی ملی ہو۔
بنیاد جب تک کمزور رہے گی، اس پر کھڑی عمارت لڑکھڑاتی رہے گی۔ ہماری نوجوان کی بنیاد کمزور ہے، دنیا نے چاند اور مریخ پر قدم جما لیے اور ہم بیس سال پرانا نصاب ہی اپنے بچوں کو پڑھانے پر مصر ہیں۔