Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asifa Ambreen Qazi
  4. Thapki

Thapki

تھپکی

ذہنی آسودگی آج کے دور میں بہت بڑی نعمت ہے، مینٹل ہیلتھ ڈے پر امریکا سے جو سالانہ رپورٹ شائع ہوئی اس میں لکھا گیا کہ دنیا میں ہر تیسرا فرد ذہنی کشمکش یا ڈپریشن کا شکار ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ذہنی بیماری میں مبتلا یا ڈپریشن کے شکار شخص کو سب سے کم توجہ دی جاتی ہے۔ اس میں سوچ کی دو انتہائیں شامل ہیں، پہلی انتہا یہ ہے کہ ڈپریشن کو سرے سے بیماری ہی نہیں سمجھا جاتا۔ کوئی ذہنی تناؤ کا شکار ہو تو اسے نارمل سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

دوسری انتہا یہ ہے کہ ڈیپریشن میں مبتلا انسان کو پاگل اور نفسیاتی گردانا جاتا ہے۔ یعنی یا تو آپ سرے سے بیماری مان ہی نہیں رہے یا پھر اسے پاگل پن کی بیماری قرار دے رہے ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں ایشیائی ملکوں خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان میں خودکشی کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان چند سالوں میں ذہنی تناؤ میں اضافہ ہوا ہے اور خود سوزی کے اس رجحان میں پڑھا لکھا طبقہ زیادہ تعداد میں شامل ہے۔

ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم نے پریشانیوں اور تناؤ کی بھی جنسی اور صنفی تقسیم کر رکھی ہے۔ عمومی سوچ یہی ہے کہ گھریلو اور ملازمت پیشہ خواتین ذہنی تناؤ کا زیادہ شکار ہوتی ہیں، انھیں مسائل کا زیادہ سامنا ہے اور ان میں حساسیت چونکہ زیادہ پائی جاتی ہے تو وہ نفسیاتی عارضے کا جلد شکار ہوتی ہیں اور مرد مضبوط ہوتا ہے تو اسے ذہنی تناؤ یا پریشانی نہیں آ سکتی جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اور یہ Myth سراسر غلط ہے۔

پوری دنیا میں خودکشی کی شرح چیک کریں تو وہ مردوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ مردوں میں ڈپریشن کی بیماری کا تعین نہ ہونا، انہیں مضبوط گرداننا، ان کو رونے یا مسائل بیان کرنے کا موقع نہ دینا یا انھیں مضبوط اعصاب کا یا بے حس انسان سمجھا جانا ہے۔ مرد و زن دونوں کو اپنے اپنے محاذ پر لڑنا پڑتا ہے لیکن خواتین کے پاس اپنا غبار نکالنے اور کتھارسس کرنے کے کئی ذرائع ہوتے ہیں۔

وہ ماں سے بھی ہر بات کر لیتی ہے، دوستوں سے راز بانٹ لیتی ہے، وہ گھر کی ملازمہ یا بچوں پر چیخ چلا کر غصہ کم کر سکتی ہے، میاں سے لڑ جھگڑ کر غبار نکال لیتی ہے۔ لیکن مرد کو ان میں سے کوئی ایک میڈیم بھی دستیاب نہیں ہوتا کہ وہ اندر اور باہر کے سارے مسائل کسی سے بیان کر سکے یا کسی کے کندھے پر سر رکھ کر غبار ہلکا کر لے۔

کاروبار کے جھنجھٹ، باس کا غصہ، روزگار کے معاملات، کفالت کی ذمہ داریاں، خرچ اور آمدن میں توازن کا چکر۔ یہ سب مل کر کسی بھی مضبوط سے مضبوط شخص کو اندر سے بھر بھرا کر دیتے ہیں۔ سشانت سنگھ ہو یا ڈاکٹر عامر لیاقت، اردو کا شاعر زین عباس ہو، ن م راشد ہر کوئی زندگی کی تلخی کے آگے بے بس نظر آیا اور، مرد تو بہادر ہوتے ہیں، کے نعرے اور آوازوں کے نیچے دب کر اپنی جان دے بیٹھتے ہیں۔

صنف کوئی بھی ہو، جنس کوئی بھی ہو سینے کے اندر گوشت کا لوتھڑا جسے دل کہا جاتا ہے وہ تو سب انسانوں کے اندر ایک سا دھڑکتا ہے۔ حساسیت اور زود رنجی کسی ایک صنف کی میراث نہیں۔ حالات و واقعات کسی کے دل پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں، کسی کو بھی توڑ سکتے ہیں۔ لہٰذا نفسیاتی اور روحانی بیماریوں کی تشخیص ضروری ہے، تشخیص ہو جائے تو علاج لازمی ہے۔ جسے سونے کو تکیہ دستیاب ہو نہ ہو لیکن رونے کو کندھا میسر ہو تو غم بہل جاتا ہے، آنکھیں ہلکی ہو جاتی ہیں اور زندگی رواں رہتی ہے۔

Check Also

Sarak, Sawari Aur Be Dharak Yaari (2)

By Maaz Bin Mahmood