Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asifa Ambreen Qazi
  4. Postpartum Hemorrhage

Postpartum Hemorrhage

پوسٹ پارٹم ہیمرج

جس حالت میں، میں نے اپنی بہن کو دیکھا، دعا کرتی ہوں کوئی اور لڑکی دوران ڈلیوری یہ اذیت نہ دیکھے۔ اذیت کیا، زندگی اور موت کی جنگ تھی۔ نچڑتی ہوئی اور خون کے بہاو کے ساتھ ہاتھ سے نکلتی ہوئی زندگی۔۔

بلڈ کا گروپ وہ تھا جو ہزاروں میں کسی ایک کا ہوتا ہے، پھر اس مرض سے مکمل ناواقفیت۔۔

میں چاہتی ہوں سوشل میڈیا پر موجود ہر ڈاکٹر PPH پر آگاہی دے۔ اسی ہسپتال میں ایک ہفتے میں تین کیس ایسے آتے ہیں جن میں بعد از ڈلیوری خون بہنے سے خواتین نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے اپنی زندگی ہار جاتی ہیں۔

یہ بھی ایک نارمل ڈلیوری تھی، پہلے ایک بیٹا اور بیٹی نارمل ڈلیوری کے ذریعے ہی دنیا میں آئے۔ جس لیڈی ڈاکٹر نے کیس ہینڈل کیا، پیدائش کے دس منٹ بعد اس نے باہر آ کر کہا بلیڈنگ کنٹرول نہیں ہو رہی۔ سول ہسپتال لے جائیں وہاں خون دستیاب ہوگا۔

لیکن سول سے خون نہ ملا، ایک سے دوسرے ہاسپٹل جاتے ہوئے مزید وقت گزر گیا۔ سٹریچر پہ، گاڑی میں، ایمبولینس میں، بیڈ پر۔۔ ہر طرف خون تھا۔

حالت دیکھ کر ڈاکٹر نے صاف کہہ دیا کہ بچنے کے صرف بیس فیصد چانسز ہیں، آپ نے دیر کردی ہے۔ جسم کا 70 فیصد خون یوٹرس کے ذریعے نکل چکا تھا اور ہیمو گلوبن 4 اور بلڈ پریشر 50 سے بھی نیچے تھا۔ بی نیگیٹیو ہونے کی وجہ سے رات تین سے صبح نو بجے تک صرف ایک خون کی بوتل ملی تھی۔

تیسری بار ڈاکٹر نے کہا آپ کے پاس ایک گھنٹہ ہے، خون ارینج نہ ہوا تو جان جا سکتی ہے۔ ہر گزرتے سیکنڈ کے ساتھ خون کی مقدار تیزی سے کم ہو رہی تھی۔ میری نیم جان بہن کبھی میرا تو کبھی میرے بھائی کا بازو پکڑ کہتی، میرے بچوں کا کیا ہوگا؟ میں بچ جاوں گی نا؟ ، اور ہمارے پاس رونے اور جھوٹی تسلی کے سوا کچھ نہ تھا۔ بہنوئی ڈاکٹرز کے سامنے ہاتھ جوڑ رہے تھے کہ کسی طرح بچا لیجیے۔ ہمارے پاس سب کچھ تھا، سوائے بی نیگیٹیو خون کے۔۔

جب کوئی حل نظر نہ آیا تو سوشل میڈیا پر درخواست کی، پوسٹ ہزاروں کی تعداد میں شئیر ہوئی اور لوگ ہسپتال کی جانب دوڑ پڑے۔ مسلسل کالز کی وجہ سے ہمارے موبائل آف ہوچکے تھے، یوں ہر ایک سے رابطہ کٹ گیا۔ لیکن لیبارٹری کے سامنے لوگوں کی قطار تھی، مرد تو ایک طرف خواتین بھی خون دینے پہنچ گئیں۔

فورا آپریشن تھیٹر میں چار بوتلیں پہنچائی گئیں، خون روکنے کے لیے یوٹرس نکالنا ہی آخری حل تھا۔ سو نکال دیا گیا۔ آپریشن کامیاب رہا۔ اس کے بعد بھی بلڈ اور پلازمہ لگتا رہا۔

اس حالت میں سروائیو کر جانا ایک معجزہ تھا۔ نہیں معلوم دنیا کے کس کس کونے سے دعائیں ہمارے ساتھ تھیں۔ زندگی کو جنم دینے والی زندگی بچا لی گئی۔

نجانے ہر سال کتنی عورتیں اس مرض کا شکار ہو کر لیبر روم سے کبھی گھر واپس نہیں آتیں۔ ڈاکٹرز کی کوتاہی ہے یا قسمت۔۔ ہمیں اس بارے میں آگاہی دینا ہوگی۔

پلیز پوسٹ پارٹم ہیمرج سروائیورز اور اس مرض پر لکھیے۔ کیا احتیاطی تدابیر ہوں؟ کیا واقعی خون روکنے والا کوئی انجکشن ہے؟ بلیڈنگ شروع ہوجائے تو کیا کیا جائے؟ ڈلیوری سے قبل کتنا بلڈ یا ڈونرز اکھٹے کیے جائیں؟ قبل از پیدائش اس کا ٹیسٹ کیسے ہو۔۔

پلیز لکھیے۔۔ اور زندگیاں بچا لیجیے۔

آج شام چار دن بعد میری بہن کو ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا ہے، جو جسمانی نقصان ہوا اس کی تلافی ممکن نہیں، ابھی ٹراما کی کیفیت ہے۔۔ لیکن اللہ تعالی نے ذندگی بخش دی تو یہ کسی انعام سے کم نہیں۔

ہر اس خاتون کا جو ماں بننے والی ہے۔۔ خیال رکھیے۔

Check Also

Masjid e Aqsa Aur Deewar e Girya

By Mubashir Ali Zaidi