Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asifa Ambreen Qazi
  4. Parent Teacher Meetings

Parent Teacher Meetings

پیرینٹ ٹیچر میٹنگز

ہم بچوں کو مہنگے اور جدید پرائیویٹ سکولوں میں داخل کروا کر سوچتے ہیں چونکہ ماہانہ فیس دے رہے ہیں تو سکول والے ہمارے بچے کو آئن سٹائن بنا چھوڑیں گے۔ ہر سال سکولوں میں پیرینٹ ٹیچر میٹنگز ہوتی ہیں اور میں نے نوے فیصد پیرنٹس کو ان میٹنگز سے کبھی خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے نہیں دیکھا۔ ان میں سے اکثر کا خیال ہوتا ہے کہ یہ میٹنگز ہمارے بچوں کی شکایات سننے یا بتانے کے لیے ترتیب دی جاتی ہیں۔

سالانہ تین میٹنگز بھی ہوں تو آج تک سوائے ایک آدھ والدین کے کسی کو نہیں دیکھا کہ انہیں PTM کا مقصد سمجھ آیا ہو۔ والدین صرف یہ پوچھنے آتے ہیں، جی بتائیے ہمارا بچہ پڑھائی میں کیسا جا رہا ہے؟ اب اگر بچے کے پاس فطری ذہانت ہو گی تو ٹیچر اس کی تعریف میں رطب اللسان ہو جائے گی اور ماں باپ خوشی خوشی نکل جائیں گے۔ جو بچہ قدرے ذہنی پسماندگی کا شکار یا قدرے شرارتی ہو گا، اس کی شکایتوں کا ایک انبار پیش کیا جائے گا اور والدین ہزاروں میں فیس دے کر بھی سر جھکا کر بیٹھے رہیں گے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم PTM پہ صرف یہ پوچھنے جاتے ہیں کہ ہمارا بچہ کیسا جا رہا ہے؟ کیا ہمیں اس کی روزمرہ کی پراگرس کا بطور والدین ذرا بھی علم نہیں۔ کچھ سال پہلے ایک صاحب آتے تھے ان کے ہاتھ میں ڈائری ہوا کرتی تھی اور اس میں ہر PTM کا ریکارڈ ہوتا تھا، وہ سامنے بیٹھتے تھے، ڈائری نکالتے تھے اور بولتے جاتے تھے کہ چھ ماہ پہلے آپ نے اس کی یہ خامیاں اور خوبیاں بتائی تھیں، آپ نے بتایا تھا شرارتی بہت ہے، اس پر میں نے چھ ماہ بہت کام کیا، اس کی کونسلنگ کی کیا یہ بہتر ہو گیا ہے؟

جی اب تو کافی بہتر ہے، توجہ سے کام کرتا ہے۔

جی بہتر، آپ نے بتایا تھا اس کی لکھائی میں ربط نہیں ہے، سپیلنگ کی بہت غلطیاں کرتا ہے، چھ ماہ میں آپ نے اس پہ کیا کام کیا؟ وہ ڈائری کھول کر پوچھتے اور ایک ایک بات نوٹ کر کے ضبط تحریر میں لے آتے۔ کہتے مجھے ہر چھ ماہ بعد تعریف نہیں سننی، نہ ہی شکایتوں کی فہرست لینے آیا ہوں، آپ کی کلاس میں تیس بچے ہونگے، لیکن ہر بچہ اپنے ماں باپ کا ایک ہی ہے اور اس میں انفرادی تبدیلی دیکھنا چاہتا ہوں، مجھے صرف لیب رپورٹس اور مرض مت بتائیں۔ تشخیص ہو چکی تو اب علاج کی طرف آئیں۔

مرض لاعلاج ہو تو کسی اور ادارے میں ریفر کر دیں لیکن میرے بچے کا مستقبل کسی صورت داؤ پر نہ لگے۔ سینکڑوں والدین میں سے شاید یہ وہ واحد باپ تھے جو کئی سالوں سے پی ٹی ایم ریکارڈ لیے ہر میٹنگ میں آتے تھے، ٹیچرز ان سے ملاقات کے لیے مکمل ہوم ورک کر کے آتے تھے، ان کے بچے کا شمار سکول کے بہترین بچوں میں ہونے لگا۔ اور پھر ایسے بھی والدین دیکھے جن کو اپنے بچے کا سیکشن تک معلوم نہ تھا اور وہ سکول آ کر معلوم کرتے اور روبوٹ بن کر ٹیچر کے سامنے بیٹھ جاتے۔

اگر آپ روزانہ کی بنیاد پہ بچے کی تعلیمی پراگرس کا جائزہ نہیں لیتے، تو ایسی میٹنگز میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر مہنگے سکولوں میں بچوں کو داخل کروایا ہے تو محض روبوٹ پیرنٹ بن کر میٹنگز میں جانے کی بجائے مکمل ہوم ورک کر کے سکول جائیں، بچے کی اخلاقی، ذہنی، تعلیمی، جسمانی بڑھوتری آپ کے سامنے ہو۔ بچے کو رپورٹ کارڈ سے باہر نکل کر دیکھنا شروع کریں۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے تو اب ایک بزنس مارکیٹ بن چکی ہے، آپ نے وہاں اپنا بچہ داخل کروایا ہے تو زندگی بھر کی انویسٹمنٹ کی ہے، شرح منافع میں صرف اداروں کو نہیں اپنے بچوں کو بھی حصہ دار بنائیے۔

Check Also

Aankh Jo Kuch Dekhti Hai (2)

By Prof. Riffat Mazhar