Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asifa Ambreen Qazi
  4. Mehmano Ke Liye Makhsoos Bistar Aur Qeemti Bartan

Mehmano Ke Liye Makhsoos Bistar Aur Qeemti Bartan

مہمانوں کے لیے مخصوص بستر اور قیمتی برتن

اگرچہ آج بھی ہمارے گھروں میں کتنے ہی قیمتی برتن، ملائم بستر اور خوبصورت فرنیچر صرف مہمانوں کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ لیکن پچھلے زمانوں میں لوگ مہمانوں کے حوالے سے کچھ زیادہ "وہمی" ہوتے تھے۔ یہ رواج ہمارے باپ دادا سے چلے آ رہے ہیں۔ چاہے سال میں ایک آدھ ہی مہمان آئے لیکن سب سے قیمتی برتن ان کے انتظار میں سالوں الماریوں میں بند پڑے رہتے ہیں۔

قصبوں اور دیہاتوں میں یہی برتن کارنس، پڑچھتیوں اور شیلف پر سجا کے پورے کمرے کو کراکری سٹور بنا دیا جاتا تھا۔ خواتین بیچاری ان کو ہر تین ماہ بعد جھاڑ پونچھ کر دوبارہ سجا دیتیں، کئی تو سٹیل اور پیتل کے گلاسوں کا ایفل ٹاور بناتے ہوئے چکرا کر پیٹی سے نیچے بھی گر پڑتیں، تانبے کا کٹورہ سر پہ لگنے سے نیل پڑوا لیتیں، سیڑھی سے پھسل کر گردن کا منکا تڑوا لیتیں لیکن مجال ہے کہ سیٹنگ خراب ہو۔ ماسی صغیرہ کا گھر والوں کو شیشے کی پلیٹ یا کسی نئی نکور رکابی میں سالن ڈالنے کی اجازت دینا گناہ صغیرہ شمار ہوتا تھا۔

دادی کے جہیز کے برتن پوتی کی شادی تک اوپر ٹنگے ہی رہتے تھے۔ پلنگ کی گلابی اور نیلی پُھلکاری والی سفید چادریں جن میں فینائل کی خوشبو رچی بسی ہوتی تھی صرف ماما جی اور چاچا جی کے لیے نکالی جاتی تھیں، ان پر شب بسری تو دور کی بات گھر والوں کی جرات نہیں ہوتی تھی کہ دو گھڑی تشریف رکھ لیں۔ اور کراکری کے معاملے میں"ہم نے برتن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے" والا جذبہ کارفرما رہتا تھا۔

گھر میں چینی، جاپانی اور جتنے بھی نفیس برتن ہوتے تھے ان کو آپ صرف شوکیس کے شیشے سے ہی دیکھ سکتے تھے، مہمان آنے سے زیادہ اس بات کی خوشی ہوتی تھی کہ آج نئے برتن نکلیں گے۔ لیکن میز پر گن کر اتنی ہی پیالیاں رکھی جاتی تھیں جتنے مہمان موجود ہوتے اور غلطی سے آپ بھی وہاں پائے جاتے تو آپ کو اسی موٹے پیندے والے دو سال پرانے کپ میں چائے پکڑائی جاتی تھی جو اماں نے قریبی کھوکھے سے لا کر رکھے ہوتے۔ اور خدانخواستہ پانی پینے کے لیے کرسٹل کا گلاس اٹھا لیا جاتا تو سیکیورٹی ہائی الرٹ ہو جاتی اور "تمہاری یہ اوقات" کے انداز میں دور سے ایسے آنکھیں نکالی جاتیں کہ پیتے ہوئے اچھو لگ جاتا۔

مہمانوں کے جانے کے بعد چینی کی پلیٹ میں بچ جانے والے بسکٹ تام چینی کی پیلی پلیٹ میں منتقل کر کے گھر والوں کو تھمائے جاتے۔ یعنی باور کرایا جاتا کہ "یہ منہ اور مہمانوں کی چیزیں؟" گھر کے سارے برتن چھوڑ کر مائیں"خاص برتن" خود دھوتی تھیں اور غلطی سے کسی پیالی کا کنڈا ٹوٹ جاتا یا چینی کی پرچ زمین بوس ہو جاتی تھی تو مائیں پہروں سر پہ دوپٹہ باندھ کے سوچ میں گم رہتیں۔ اس ٹوٹے ہوئے کنڈے کو اس آس پہ سنبھال کر رکھ لیا جاتا کہ صمد بونڈ سے جوڑ کر سیٹ پورا کیا جائے گا بھلے وہ جوڑ مہمان کی گود میں دوبارہ اُکھڑ کر "سب کچھ" جلا ڈالے۔

بچوں کو مخمل کی ملائم رضائیوں اور سفید براق کھیسوں کو صرف ہاتھ سے چھو کر دیکھنے کی اجازت ہوتی تھی۔ غلطی سے کوئی دو گھڑی لیٹ جاتا تو ان کو دو دن دھوپ لگوائی جاتی کہ مہمانوں کے لیے تھے۔ سجے سجائے ڈرائنگ روم یا مہمان خانے کی ساری بتیاں بجھا کر اس کا دروازہ مستقل بند رہتا۔ اکثر نئے صوفوں کو بچانے کے لیے پلنگ کی آتشی گلابی پھولوں والی چادروں کا گھونگھٹ ڈال دیا جاتا۔ پھر بھی مائیں گاہے گاہے جھانک کر دیکھتی رہتیں کہ خدانخواستہ گھر کا کوئی بندا صوفے پر تو نہیں بیٹھ گیا۔

Check Also

Biometric Aik Azab

By Umar Khan Jozvi