Hain Kawakib Kuch
ہیں کواکب کچھ
عوام کو خواص کی جانب سے دھوکے میں رکھنا یا بدھو بنانا اتنا مشکل کام نہیں۔ ہمیں چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھا کر بڑے بڑے فراڈ چھپا لیے جاتے ہیں۔ آئیے آپ کو مثال سے سمجھاؤں۔
آپ نے دیکھا ہو گا ملک میں بڑے مہنگے مہنگے نجی سکول موجود ہیں، لیکن ان مہنگی کمپنیز نے اپنے برینڈ تلے دوسرے ناموں سے چھوٹے چھوٹے سکول بھی بنا رکھے ہیں۔ اس کے پس پردہ مقاصد یہ ہیں کہ جو لوگ مہنگی فیس ادا کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے ان کو ہاتھ سے نہ نکلنے دیا جائے۔ اگر مہنگے سکول کی فیس بیس ہزار ہے تو اسی برینڈ پر ایک سستا سکول بنا کر فیس آٹھ ہزار رکھ دی جاتی ہے اور دونوں سکولوں کو مقابلے پر لے آتے ہیں۔
جس سکول میں بھی داخلہ ہو گا فائدہ مالک کا ہی ہو گا کہ صرف نام مختلف ہیں مقاصد اور فوائد ایک ہی کمپنی کو حاصل ہیں اور انکشاف یہ ہوتا ہے کہ جو آٹھ ہزار والے سکول کا نصاب اور اسٹاف ہے، اسی لیول کا نصاب اور فیکلٹی مہنگے سکول میں موجود ہے یعنی فیس دو گنا اور تعلیم کا معیار ایک جیسا۔ پھر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے اور دونوں طریقوں سے بدھو بنایا جاتا ہے۔
یہی حال سیاست کا ہے، ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے خونی رشتے دو مختلف پارٹیوں کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے ہیں، ایک ہار بھی جاتا ہے تو اسی خاندان کا ایک شخص اسمبلی اور پھر وزارت تک پہنچ جاتا ہے۔ یعنی ووٹ تو بٹ گیا لیکن کرسی اسی خاندان میں رہی اور پورا قبیلہ حکمرانی سے فوائد اور لطف کشید کرتا ہے۔ میں کچھ پرانی مثالیں بھی پیش کرتی ہوں لیکن فی الحال موجودہ سیاسی منظر نامے اور خانوادے پر نظر ڈال لیجیے۔
جن کو آپ نظریاتی کارکن اور اپنا ہمدرد لیڈر بناتے ہیں اور دوسرے کو اس کا مخالف سمجھتے ہیں ان کی جڑیں ایک ہی زمین میں ہیں اور ہم ان کے پیچھے اپنی رشتہ داریاں اور تعلقات داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ باپ، بیٹا، بھائی، بہن مخالف پارٹیوں کی مہم چلا کر فائدہ اپنے خاندان کو ہی پہنچاتے ہیں۔ تحریک انصاف کے اسد عمر اور زبیر عمر آپس میں بھائی ہیں، ایک ہارے گا تو دوسرا منسٹر بن جائے اور وزارت گھر میں ہی رہے گی۔ عمران اسماعیل اور مفتاح اسماعیل کے بھی یہی حالات ہیں۔
گجرات کے چوہدری برادران اور کزنز مخالف پارٹیوں کو سپورٹ کر کے کرسی اپنے گھر سے جانے نہیں دیتے۔ سابق گورنر پنجاب اور مسلم لیگ نون کے سینیٹر سردار ذوالفقار کھوسہ کا ڈیرہ غازی خان کی صوبائی نشست پر اپنے ہی بیٹے سے مقابلہ تھا۔ سابق سپیکر سید فخر امام اور ان کے بیٹے عابد حسن امام نے مخالف جماعتوں کی جانب سے انتخاب لڑا۔ فخر امام مسلم لیگ نون کی جانب سے جبکہ سید عابد حسن امام چنیوٹ سے پیپلز پارٹی کے امیدوار بنے۔
غلام مصطفیٰ کھر اور ان کے چھوٹے بھائی غلام ربانی کھر جو موجود وزیر خارجہ حنا ربانی کے والد ہیں، الگ الگ حلقوں سے انتخاب میں حصہ لیتے رہے۔ طارق بشیر چیمہ مسلم لیگ قاف اور ان کے بھائی طاہر بشیر چیمہ مسلم لیگ نون کی جانب انتخاب میں حصہ لیا۔ خیبر پختونخوا کے سلیم سیف اللہ اور بھائی ہمایوں سیف اللہ، اعظم خان سواتی تحریکِ انصاف اور ان کے بھائی لائق خان الگ الگ حلقوں سے امیدوار ہیں۔
سمیرا ملک نے مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا جبکہ ان کی بہن عائلہ ملک تحریک انصاف میں ہیں۔ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کے امیدوار ہیں جبکہ ان کے بھائی مرید حسین قریشی پیپلز پارٹی میں ہیں۔ شہید بینظیر بھٹو ماضی میں بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے خلاف الیکشن لڑتی رہیں۔ بھلوال کے ندیم افضل چن اور ان کے بھائی، سرگودھا کے چیمہ برادران مخالف پارٹیوں کا ٹکٹ لے کر عوام کو بے وقوف بناتے رہے۔
یہ انوکھے لاڈلے مخالف الیکشن لڑیں یا موافق رہیں، قوم کی حالت سدھرنے نہیں دیں گے لیکن ان کے خاندان حکمرانی اور بادشاہت سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے۔ جب تک یہ گلا سڑا خاندانی سیاسی نظام چلتا رہے گا، عوام پستی رہے گی۔