Ghar
گھر
عورت اور مرد کے حقوق اور ذمہ داریوں کی جنگ اور بحث ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گی۔ عورت یہ سمجھتی ہے کہ اس کے لیے خانگی مسائل زیادہ ہیں، اسے گھریلو محاذ پر ایک مرد کی نسبت زیادہ لڑنا پڑتا ہے۔ ماں باپ کا گھر چھوڑ کر ایک بالکل اجنبی ماحول اور گھرانے میں آ جانا اور ان کے رہن سہن اور طور طریقے اپنا لینا لڑکی کی بہت بڑی قربانی ہے۔ نئے ماحول میں اسے ایڈجسٹ ہونے میں کئی مشکلات پیش آ سکتی ہیں، وہ صبر، محبت اور کمپرومائز سے اپنی ازداوجی زندگی کے اوائل دنوں میں سسرال میں اپنا سکہ بٹھانے کی کوشش کرتی ہے۔
نو ماہ ماں بننے کا عمل بھی آسان نہیں ہوتا، زچگی کی تکلیف سہہ کر وہ کسی ننھی سی جان کو دنیا میں لاتی ہے۔ اب اس کے اوپر دو ذمہ داریاں آ جاتی ہیں ایک گھر کا نظام بہتر طریقے سے چلانے کی اور دوسری ذمہ داری ننھی سی جان کی پرورش کی بھی ہے۔ راتوں کو جاگنا، بیماری میں بچے کا خیال رکھنا، اس کی تربیت اور پرورش سب ماں کے ذمے ہوتی ہے۔ یہی بچہ جب سکول داخل ہوتا ہے تو ماں ایک ہوم ٹیوٹر کا کردار ادا کرنے لگتی ہے۔
دوسری طرف مرد کی ذمہ داریوں کی بات کریں تو وہاں بھی ذمہ داریوں کی ایک طویل فہرست ہے عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ مرد پر گھر کی ذمہ داریاں چونکہ عائد نہیں ہیں تو وہ عورت کی نسبت قدرے آسان زندگی میں ہے اور اس پر ذہنی تناؤ نہیں۔ اگرچہ مرد کو گھریلو امور مثلاً صفائی کرنا، برتن اور کپڑے دھونا، بچوں کی پرورش کرنا اور امور خانہ داری جیسے کاموں سے رعایت مل جاتی ہے لیکن ملازمت، کاروبار اور باہر کے امور بھی کچھ کم مشقت طلب نہیں ہوتے۔
تڑکے تڑکے گھر سے نکلنے والا مرد چاہے وہ مزدور ہو یا کسی کمپنی کا CEO وہ سارا دن اپنی جان مارتا ہے تاکہ گھر کا نظام درست طریقے سے چلا سکے اور بیوی بچوں کی بہتر طریقے سے کفالت کر سکے۔ کچھ حضرات تو روزگار میں اپنے گھروں سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر اپنی زندگی گزار دیتے ہیں، یا تو دوسرے شہر میں کام کرتے ہیں یا ان کے کاروبار ملک سے باہر ہوتے ہیں سال بعد بچوں کے گھر کی شکل دیکھتے ہیں، اگرچہ باپ کا کردار گھر سے بچوں کی تربیت میں بہت کم ہے لیکن بچوں کے لئے باپ کی قربانی کو پس پشت نہیں ڈال سکتے۔
مرد کو اللہ تعالیٰ نے قوام بنایا ہے اور عورت کو گھر میں عزت اور احترام دے کر اختیار دیا ہے، ماں بنا کر اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی اور باپ کو جنت کے دروازے کی کنجی قرار دیا۔ مسئلہ ذمہ داریوں کی تقسیم نہیں، مسئلہ وہ دوڑ ہے جس میں سبقت لے جانے کے لیے مرد و زن اپنا پورا زور لگا رہے ہیں۔ میاں اور بیوی کو ایک گاڑی کے دو پہیے اس لیے کہا گیا ہے کہ توازن برقرار رہے، کوئی پہیہ اپنے سائز، وزن اور اہمیت میں کم ہو گا تو گاڑی ہچکولے کھانا شروع کر دے گی۔
اس گاڑی کو روانی سے چلانے کے لیے ہر پہیے میں برابر اور بر وقت ہوا بہت ضروری ہے۔ یہ ہوا محبت، ایثار، احترام اور قربانی سے بھری جاتی ہے۔ جس گھر میں شوہر بیوی کے حقوق کا استحصال کرے اور بیوی شوہر کا احترام نہ کرے تو وہ گاڑی بہت جلد پٹڑی سے اتر جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی گھر عورت کے وجود کے بغیر چلنا ناممکن ہے، اسی طرح مرد کے سہارے اور تعاون کے بغیر عورت ادھوری ہے۔ آئیے مسابقت اور مقابلے کی فضا سے نکل کر اپنے اپنے دائرہ کار میں ذمہ داریوں اور فرائض سے آگاہی حاصل کریں۔ جن گھرانوں میں میاں بیوی کے مابین کھینچا تانی اور رنجش رہتی ہے وہ مٹی اور کنکریٹ کے مکان تو ہو سکتے ہیں گھر نہیں۔