Charah Gari
چارہ گری
پرانے وقتوں میں جب موبائل نہیں تھے تو کسی کی بیماری کا تب پتا چلتا تھا جب وہ تندرست ہو جاتا تھا لیکن پھر بھی لوگ تیمارداری کی غرض سے گھر ضرور آتے تھے جس سے مریض اور اس کے گھر والوں کو اپنائیت کا احساس ہوتا تھا اور شکوہ باقی نہیں رہتا تھا تب ماحول اور تقاضے مختلف تھے۔ اب موبائل فونز اور فیملی واٹس ایپ گروپ کی بدولت کسی کی سرجری ہو یا ایکسیڈنٹ خبر آناً فاناً سارے خاندان اور دوست احباب میں پھیل جاتی ہے۔ فکر مند احباب فون یا میسج کر کے طبیعت پوچھ لیتے ہیں، اس طرح اپنا اور مریض کا وقت بھی بچ جاتا ہے۔
کچھ روز قبل ایک صاحب کی اہلیہ کے ایمرجنسی میں دو آپریشن ہوئے، کچھ اور پیچیدگیاں بھی تھیں جس کی وجہ سے وہ صاحب ہسپتال میں گھبرائے ہوئے خون کا انتظام کرتے رہے لیکن اللہ کا کرم ہوا سرجری کامیاب رہی۔ ان سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ بیماری کی پریشانی تو ایک طرف جو مہمانوں کی طرف سے دیکھنی پڑی وہ الگ۔
جیسے ہی سرجری کا سنا رشتے دار ہاسپٹل میں پوچھنے چل پڑے، نہ بیٹھنے کی جگہ نہ کھڑے ہونے کی۔ ادھر ڈاکٹر دوائیوں کا پرچہ تھماتا ادھر فون آ جاتا آپ کا روم نمبر کون سا ہے؟ ہم فلاں بات کر رہے ہیں ہاسپٹل کے باہر کھڑے ہیں۔ بات یہیں ختم نہ ہوئی جیسے ہی دو دن بعد اہلیہ ہسپتال سے ڈسچارج ہوئیں گھر پہ مہمانوں کا تانتا بندھ گیا۔ کسی کے لیے چائے بن رہی ہے تو کسی کے لیے کھانا۔ دو صبح آ رہے ہیں، دو شام۔ شور کی وجہ سے اہلیہ کی طبیعت مزید خراب ہونے لگی۔
یہ کیسی تیمارداری اور عیادت ہے کہ مریض اور اس کے گھر والوں کے لیے مشکل کھڑی کر دی جائے۔ ہم ایک باشعور معاشرے کے پڑھے لکھے انسان ہیں، مریض کی عیادت کا حکم ہے لیکن ان کے لیے دقت اور زحمت کا باعث نہ بنیں۔ گھر سے کھانا کھا کر جائیں بلکہ مریض کے لیے یا اس کے گھر والوں کے لیے کچھ بنا کر لے جائیں، ایک دو گھنٹوں سے زیادہ قیام نہ کریں، مریض یا گھر والوں سے بیماری یا علاج کی داستان سنانے پر اصرار مت کریں۔ ممکن ہو تو فون پر ہی مختصراََ پوچھتے رہیں۔ تسلی، دلاسہ اور دعا۔ اس سے زیادہ کسی بیمار کو کیا چاہیے۔