Camera Ki Ankh
کیمرہ کی آنکھ
ماضی بعید کا قصہ تو نہیں لیکن ایک دور تھا جب موبائل کا وجود نہیں تھا تو کوڈک، فیوجی، یاشیکا اور ہیٹاچی کے سادہ کیمرے استعمال ہوتے تھے۔ پھر موبائل کیمرہ نے فوٹو آنے کی وہ خوشی اور ایکسائٹمنٹ ختم کر دی ہے جو اس زمانے میں ہوتی تھی۔ موبائل سے جب چاہیں فوٹو بنا لیں اچھی نہ آئے تو دوبارہ بنا لیں۔ لیکن رول والے کیمرے سے "جو ہے، جہاں ہے اور جیسا ہے" کی بنیاد پر گزارا کرنا ہوتا تھا۔
اس کیمرے کا بھی اپنا ہی راج تھا۔ جس بھائی یا کزن کے ہاتھ میں کیمرہ ہوتا اس کا انداز ہی الگ ہوتا۔ پوری تقریب میں اس کو سب زیادہ اہمیت دی جاتی اور لالچ صرف اپنی تصویر کا ہوتا۔ 24 یا 36 نیگیٹیو کا رول اس کیمرے میں ڈالا جاتا تھا۔ تقریب سے پہلے کیمرے کا انتظام کیا جاتا۔ رول اکٹھے کسی سیانی خالہ کے پرس میں رکھوا دئیے جاتے۔
فوٹو گرافی کے لیے خاندان کے کسی ماہر فرد کو مامور کیا جاتا اور اکثر اوقات جس تصویر کا سب سے زیادہ انتظار ہوتا تھا وہ نیگیٹو خراب ہونے کی وجہ سے آتی ہی نہیں تھی۔ ہر تقریب میں ایک چالاک قسم کی آنٹی ضرور ہوتی جو فوٹو گرافر سے اپنی اور اپنے خاندان کی تصویریں کھنچواتی رہتی، بعد میں انکشاف ہوتا کہ دلہن کی بہن کی تو چھ تصویریں آئی ہیں اور اس آنٹی بمعہ اہل و عیال کی اکیس۔
ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا کہ 36 تصویریں مکمل آئی ہوں۔ کسی اناڑی پر بھروسہ کر لیا جاتا تو نصف تصاویر میں لوگ سر اور پاوں سے محروم ہوتے۔ تقریب کے بعد فوٹو شاپ سے تصویریں دھلوانے کی بھی الگ کہانی ہوتی۔ تب ڈیویلپ کا لفظ رائج ہی نہیں تھا۔ دکان پر جا کر، جی میں آتا کہ بس ابھی کے ابھی ساری تصویریں دھو کے ہمارے ہاتھ میں تھما دی جائیں۔
کبھی یہ انکشاف بڑا روح فرسا ہوتا جب دکان دار کیمرے سے رول نکال کر آپ کے ہاتھ میں تھما دیتا کہ رول ایکٹیو ہی نہیں تھا صرف فلیش چلتی رہی۔ یا اکثر وہی تصویر نہ آتی جو بڑے چاؤ سے بنوائی جاتی پھردھاڑیں مار مار کر رونے کو جی چاہتا تھا۔ تب فلٹر نامی بلا سے کوئی واقف نہ تھا۔ اس دن کی بھی الگ خوشی ہوتی جب البم آپ کے ہاتھوں میں ہوتی۔
ہر تصویر کو کئی کئی بار دیکھا جاتا، البم میں ترتیب سے لگایا جاتا، جو تصویرآنکھ کو نہ بھاتی یا قدرے خراب ہوتی وہ البم میں کسی تصویر کے پیچھے چھپا دی جاتی۔ تصویروں کی درجہ بندی ہوتی۔ پھر سب کو فون کر کے اطلاع دی جاتی، جیسے ہی کسی گھر میں مہمان آتا سب سے پہلے تصویریں دکھانے کی فرمائش ہوتی، پھر وہ لوگ بھی سر پر سوار ہو کر دیکھنے لگتے جو سو بار پہلے بھی دیکھ چکے ہوتے۔
ہر فوٹو پر نئے سرے سے تبصرہ ہوتا۔ جس کو البم دکھانا مقصود ہوتا اس کی فوٹو پہلے ہی البم سے غائب کر دی جاتی مبادا وہ مانگ نہ لے۔ بعض تو اپنی تصاویر دیکھ کر جھپٹ لیتے، یوں البم آدھا خالی ہو جاتا۔ اپنی تصویر مضحکہ خیز آنے کی صورت میں اوپر بال پوائنٹ مارنے کا رواج بھی تھا۔
کئی گھروں میں سیانے ابا جی بھی پائے جاتے تھے، وہ ہر تصویر کی پشت پر تاریخ اور مقام درج کر دیتے، بعض میں اشخاص کے نام بھی (اب بھی کئی گھروں میں ایسی تصاویر موجود ہوں گی) کچھ خاص تصویریں سب سے چھپا کے تکیے کے نیچے اور بٹوے کے اندر بھی رکھی جاتیں۔
پھر ٹیکنالوجی نے کروٹ لی اور ان کیمروں کی ضرورت جاتی رہی، موبائل کی وجہ سے تصاویر ڈیویلپ کرانے کا شوق بھی جاتا رہا۔ اب وہ کیمرے اور تصویریں ماضی کا حصہ ہیں۔ جس تصویر کے لیے ہفتوں انتظار کیا جاتا تھا وہ اب لمحوں میں سامنے آجاتی ہے۔ ہمارے بزرگ ہمیں آٹے کی چکی اور چرخے کی باتیں بتاتے ہیں ہم نئی نسل کو کیمرے کی کہانیاں سنائیں گے۔
اب گھروں میں وہ تصویریں تو ہیں لیکن جو تصویروں میں ہیں وہ لوگ گھروں میں نہیں۔ کوئی پردیس بیٹھا ہے تو کوئی اس دیس سدھار گیا جہاں سے واپس آنے کا کوئی راستہ نہیں، یہی تصویریں خوش کرتی ہیں تو آنکھیں بھی نم کر دیتی ہیں ان میں موجود چہرے اب بھی مسکاتے ہیں، باتیں کرتے ہیں اور ماضی میں لے جاتے ہیں۔
کیمرہ، آنکھ میں زنداں لیے پھرتا ہے
کوئی تصویر سے ہجرت بھی کرے کیسے؟