Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asifa Ambreen Qazi
  4. Aap Ke Pas Jawab Hai?

Aap Ke Pas Jawab Hai?

آپ کے پاس جواب ہے؟

سینیر کلرک ہیں، کسی کام سے آنا ہوا، یہ کہانی وہ آج پہلی مرتبہ سنا رہے تھے۔ بولے ساری زندگی ڈرتے ہوئے گزاری، تین بہنوں کا اکلوتا بھائی ہونے کے باوجود والد صاحب سے زیادہ ڈر لگتا تھا، کچھ ان کا رعب بھی زیادہ تھا۔ میری حساسیت کو نہ کبھی ماں نے اہمیت دی نہ ابا کو پتا چلا۔ ان کا خیال تھا کہ حساس صرف صنف نازک ہوتی ہے۔ مرد کے جذبات تو آہنی ہوتے ہیں۔ اس کے سینے میں ایک بے حس اور ٹھنڈا گوشت کا لوتھڑا ہوتا ہے۔ دل نہیں!

پھر نہ چاہتے ہوئے بھی دل کسی کی طرف مائل ہو گیا، محبت پہ تو کوئی زور نہیں، یہ پلاننگ سے بھی نہیں ہوتی لیکن مجھے وہ اچھی لگتی تھی۔ ایک دو خاندانی تقاریب میں دیکھا اور ڈر اور خوف اتنا تھا کہ اس سے بات کرنے کی بجائے تین ماہ بعد اماں سے کہا اگر مناسب سمجھیں تو فلاں کے گھر رشتہ لے جائیں، نکاح ہو جائے بھلے رخصتی نہ ہو۔ اماں کے سر پہ بم پھٹا تھا۔ کہا اب یہ نام بھی نہ لینا، نہ لڑکی کا نہ پسند کا، ابا گھر سے نکال دیں گے۔

بہنوں کے رشتے نہ آئیں گے۔ دو تم سے اگرچہ چھوٹی ہیں لیکن تینوں کے بعد تمہاری طرف آئیں گے۔ مرد ہوکے بھی پھر ہمت نہ کر سکا، خود کو دن رات، مصروف کیا، دفتر میں خود کو کھپا ڈالا، تینوں بہنیں بیاہی گئیں تو میری باری آ ہی گئی۔ لڑکی دکھا کر پسند پوچھی گئی لیکن اصل میں اپنی پسند مسلط کی گئی۔ میرے پاس بھلا کیا آپشن تھا؟ رضامندی ظاہر کی۔ شادی ہوئی اور نئی زندگی کا آغاز ہوا۔

لیکن حاکمیت پھر اماں کی۔ نہ ہم کہیں آ سکتے تھے نہ جا سکتے تھے، اس کی فرمائشوں کو بھی دبا دیتا، سمجھا دیتا۔ فرمائیشیں تھیں ہی کیا؟ آئس کریم کھانی ہے، چوڑیاں لینی ہیں، بائیک پہ سی ویو تک جانا ہے۔ لیکن گھر والوں کو یہ سب چونچلے لگتے تھے۔ شادی کے پہلے سال ہی میرا دل مردہ اور اس کے جذبات سرد پڑ گئے۔ میں چکی کے دو پاٹوں میں پس رہا تھا۔ ایک ماں، ایک طرف ازدواجی زندگی۔ لیکن میرے اندر کا خوف اب بھی زندہ تھا۔

میں نے شادی کے سترہ سال اپنی بیوی کی ہر خواہش اور اپنے جذبات کا گلا گھونٹا۔ تب تینوں بچے لڑکپن میں داخل ہو چکے تھے۔ اب ان کے مستقبل کی مارا ماری میں دن گزرنے لگے۔ سکول فیسیس، ڈاکٹرز، علاج، کپڑا جوتا۔ جہاں تک ہو سکتا تھا کرنے لگا۔ تین سال بعد پہلے ابا گئے، پھر اماں بھی رخصت ہو گئیں۔ شادی کو بیس سال ہو چکے تھے۔ مجھے لگتا تھا اس نے میرے ساتھ زندگی نہیں مشقت کاٹی تھی۔

ایک دن گھر گیا اور اس کے سامنے گھر کی چابیاں، بٹوہ اور اپنا آپ رکھ دیا اور کہا اب تم اس کی مالکن ہو جیسے چاہو برتو۔ اس نے ایک نظر مجھے دیکھا چابیاں اٹھا کر میرے ہاتھ پہ رکھ دیں، پرس سامنے سے دھکیلا اور مسکرا کر بولی چابیاں، گھر، پیسے اور اپنا آپ تو لوٹا رہے ہیں مجھے میرے گزرے ہوئے بیس سال چاہیں۔ اگر وہ لوٹا سکتے ہیں تو دے دیجیے اور میرے پاس سوائے خاموشی کے اور کچھ نہ تھا۔ اب بچے جوان ہیں ان کی شادیوں کی عمر ہے لیکن مجھے خدشات ہیں، کئی خدشات ہیں۔

میری بیوی یا تو اپنی محرومیوں کو سامنے رکھ کر بہو کے سارے چاہ پورے کرے گی یا پھر جو ذہنی ٹارچر اس نے سہا وہ اس کا بدلہ کسی اور کی بیٹی کو ٹارچر دے کر لے گی۔ یہ ایک سائیکل ہے، یہ ایک چکر ہے جو ہمارے گھرانوں میں چلتا ہے، ایک چکر میں عورت مظلوم ہوتی ہے اور دوسرے میں ظالم۔ مرد چکی کے دو پاٹوں میں پستا ہے۔ مجھے نہیں معلوم میرے بیٹے کا کیا کردار ہو گا؟ لوگ زندگی جیتے ہیں ہم مڈل کلاسیے تو گزار دیتے ہیں۔

وہ عینک صاف کرتے ہوئے فرش کو دیکھ رہے تھے اور میں سوچ رہی تھی پتا نہیں مرد چکی کے دو پاٹوں میں پستا ہے یا عورت؟

اپ کے پاس جواب ہے؟

Check Also

Dil Ka Piyala

By Tauseef Rehmat