Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Yadon Ke Timtimate Diye (3)

Yadon Ke Timtimate Diye (3)

یادوں کے ٹمٹماتے دیئے (3)

کیا آپ سری لنکا کے متعلق کچھ جانتے ہیں؟

میں وہاں موجود ایک سیگائریا نامی ٹاور پہ چڑھا جو کہ 600 فٹ بلند ہے۔ میں ہمیشہ سے پانی کا دلدادہ رہا ہوں اور جب میں نوجوان تھا تو میں نے بہت ساری کشتی رانی بھی کی۔ یہ مجھ سے جوانی میں سرزد ہونے والی بہت سی فضولیات میں سے ایک ہے۔ لیکن اب لوگوں کے پاس ایسی فضولیات کا وقت نہیں ہے۔ ان کے نزدیک وقت سب سے قیمتی چیز ہے۔ وہ ہر لمحے کو سونے میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ وقت گیا جب لوگ کاموں سے بے پرواہ، تعلقات سے بے نیاز، ندی کنارے بیٹھ کر دریا کا بہاؤ دیکھتے تھے۔

انسان جب کام چھوڑ کر ٹانگیں پھیلائے، سر کے پیچھے ہاتھوں کی کنگھی سے سہارا دے کر نیم وا آنکھوں سے نیلگوں آسماں کو دیکھتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کے شعور اور لاشعور کا دروازہ کھلتا ہے۔ پھر وجدان اسے اٹھا کر تحت الشعور کی دنیا میں لے جاتا ہے۔ اس کی تخلیقی صلاحیتیں جاگتی ہیں۔ صدیوں کے گمشدہ اصلی نمونے ملتے ہیں۔ ماضی اور مستقبل کے اسرا و رموز کھلتے ہیں۔ تحت الشعور ہی یادوں کا سٹور ہاؤس ہے۔ ان الجھی گتھیوں کا پنڈورہ باکس ہے۔ یہیں سے عرفان ذات کا شعور حاصل ہوتا ہے۔ مصروف انسان کی یہاں تک رسائی نہیں ہو پاتی۔

میرا نام اسلم ملاح مہانا ہے اور میں اس وقت ایک سو اور ساڑھے آٹھ سال کا ہوں۔ میں پچھلی صدی کی دوسری دہائی کے پہلے نصف کے آخری سے پہلے سال اور پہلی جنگ عظیم سے ذرہ سا پہلے سکھر سندھ میں پیدا ہوا۔ میں نے نسبتاََ ایک آسان زندگی گزاری۔ حتیٰ کہ رائل ائر فورس میں گزارے گئے پانچ جنگی سال بھی۔ یہاں بموں کی بارش میں بھی زندگی ساون کی برسات سی لگی۔ یہ بارود کی بو سے زیادہ ایک خوشگوار باد صبا سی تھی۔ لیکن میں اپنے بچپن میں وقت کا کوئی خاطر خواہ استعمال نہ کر سکا۔

میں صرف تفریح اور اس سے ملتے جلتے کاموں میں لگا رہا۔ میں راتیں اپنی آنکھوں میں گزار دیتا، بعض اوقات آدھی رات اور اس سے آگے پھر ناشتے تک جاگتا ہی رہتا۔ ماں جی صبح سویرے نیچے اترتیں اور مجھ سے پوچھتیں ملاح تم سوئے نہیں ہو؟ اور میں کہتا کہ نہیں میں ریڈیو پر سندھی لوک موسیقی باجا اور ڈھولک کے ساتھ سنتا رہا ہوں۔ میں اس آزاد زندگی سے بہت لطف اندوز ہوا۔ پھر جب میں دوا ساز بن گیا تو یہ آزاد زندگی ایک ترتیب میں آکر بڑی پر سکون ہو گئی۔ میں مستقل طور پر برسرروزگار ہو گیا۔

میں اپنے آپ کو بالکل بھی بوڑھا نہیں سمجھتا۔ میرا خیال ہے میں ویسا ہی ہوں جیسا میں بیس یا تیس سال پہلے تھا۔ میں اپنے آپ کو انتیس سال کا نوجوان تو نہیں کہتا لیکن ستر یا اسی سال کا ایک زیرک انسان ضرور سمجھتا ہوں۔ ہاں! اب میری کچھ حدیں، مجبوریاں اور کمزوریاں ضرور ہیں۔ اگر میں اپنی اوائل عمری یعنی سکول میں، زیادہ انہماک برتتا تو میں زیادہ اور بہت اچھا مطالعہ کر سکتا تھا۔

تاہم اس کے باوجود میں نے آخر اتنا برا بھی نہیں کیا۔ جو ہوا اچھا ہی ہوا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں آپ جتنا جلد ممکن ہو پڑھائی شروع کر دیں تو اچھا ہے۔ جس حد تک ممکن ہو سکے آزاد رہو لیکن اگر کبھی مدد کی ضرورت پیش آئے تو مت شرماؤ۔ میں بڑی خاموشی سے ایک ہی جگہ رہ رہا ہوں۔ شادی کے بعد میں ہمیشہ روشن خیال رہا اور میری بیوی بھی ایک روشن دماغ اور بڑے دل کی عورت تھی۔ اس طرح ہم نے باہم بہت اچھا وقت گزارا۔

تمثیلہ سے شادی کے بعد میں نے بہت اچھی زندگی بسر کی۔ اس کے ساتھ میری ہر الٹی سیدھی پڑتی رہی۔ وہ مجھے ہر معاملے میں درست سمجھتی تھی۔ میری بیوی ایک اچھی عورت تھی۔ اچھائی عورت کا سب سے اچھا وصف ہوا کرتا ہے۔ میں اسے ایک آرام دہ ساتھی سمجھتا تھا۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ باہمی محبت نہ ہو سکنے کے باوجود ہم نے کتنی سہولت کے ساتھ زندگی بسر کی۔ اس نے اپنی فکروں کا بوجھ مجھ پر کبھی نہ ڈالا۔

میں کیا سوچتا تھا اس کا بار میں نے کبھی اس پر نہ پڑنے دیا۔ وہ میری چچا زاد بہن تھی پھر بیوی بن کر میرے پاس آ گئی۔ پھر میرے دو بچوں کی ماں بن گئی۔ ہم میں عام میاں بیوی والے جھگڑے اور چخ چخ نہ ہوتی۔ اس کو اثیلہ والے قصے کا علم تھا۔ لیکن اس نے کبھی مجھ سے اس کے بارے کوئی تفصیل جاننے کی کوشش نہیں کی۔ اور میں جانتا تھا کہ اس سے پہلے اس کی منگنی کاظم سے ہوئی تھی اور یہ منگنی پورے چار سال رہ کر ٹوٹ گئی۔

کاظم میرا دوست تھا اور ہمارے قریب ہی رہتا تھا اور میرے دل میں اس کیلئے بڑی محبت اور چاہت تھی کیونکہ وہ بہت اچھا اور کسی یونانی دیوتے کی طرح خوبصورت تھا۔ جب یہ منگنی ہوئی تو میرا خیال تھا یہ اس یونانی دیوتے کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ اس کیلئے تمثیلہ جیسی لڑکی بالکل ناکافی، ناموزوں اور ماں باپ کی نا لائقی کا ثبوت تھی۔ بہرحال ہماری شادی کے بعد بھی کاظم سے میری دوستی قائم رہی۔ وہ ہمارے گھر آتا رہا۔

میں نے تمثیلہ کو کبھی اس میں دلچسپی لیتے نہ دیکھا۔ تمثیلہ سائبان سی عورت تھی۔ چھاؤں ہی چھاؤں، ہر وقت سایہ کرنے والی۔ گھر پہنچ کر میں بھی بچوں کی طرح آزاد ہو جاتا۔ اس آرام دہ بیوی نے مجھے اپنا محتاج بنا لیا۔ میں اس محبت کا اسیر ہو گیا جو ایک اچھی عورت پیدا کر دیا کرتی ہے۔ جب کبھی لمبی پارٹنر شپ چلانی ہو تو خود انحصاری کام نہیں آتی بلکہ آپ کا انحصار ساتھی پر ہوتا ہے۔ وہی ایسے رشتے کو آگے چلاتا ہے۔

جب آپ مالی، جذباتی یا ذہنی رفاقت جیسی چیزوں کیلئے کسی شخص کے دست نگر ہو جاتے ہیں تو اس رابطے میں پھر پختگی آ جاتی ہے۔ مغرب میں خود انحصاری کے حصول اور آزادی کی طلب نے شادی جیسے مضبوط نظام کو درہم برہم کر دیا ہے۔ اب جنس، روزی، تفریح، رفاقت ذاتی مسئلہ ہے۔ کسی ایک کنوئیں سے پانی پینے کا مسئلہ نہیں اور پھر اتنی خودمختاری حاصل ہونے کے بعد کسی ایک شخص سے بندھے رہنا وبال جان بن جاتا ہے۔

تمثیلہ اور مجھ میں کئی ضرورتیں سانجھی تھیں۔ میں بری طرح اس سایہ دار درخت کی چھاؤں کا عادی ہو گیا تھا۔ وہ اور اس کے بچے میری کفالت کے بغیر بہت مشکلوں کا شکار ہو جاتے۔ اسی لئے زیادہ مشکلات کے بغیر ہماری پارٹنر شپ خوب چلی اور ہم ایک دوسرے کی ضرورت بنے رہے۔ ایک رات عبادت سے فارغ ہو کر دو تین مرتبہ وہ غسل خانے آئی گئی۔ پھر گویا اسے اس جہان فانی سے اپنے کوچ کا یقین ہو گیا۔ میں حیران رہ گیا۔

کیا کہہ رہی ہو، طبیعت بہت خراب ہے، تو ہسپتال چلتے ہیں۔

نہیں اس کا وقت نہیں ہے۔ اگر آپ کچھ پڑھنا چاہیں تو پڑھیں اور میرے لئے دعا کریں۔

میں نے ہسپتال جانے کی تیاری شروع کر دی۔

وقت نہیں ہے جی۔ آپ مہربانی کر کے کچھ پڑھیں اور دعا کریں۔

اس کے بعد اس نے بیٹے کی تربیت کے متعلق کچھ وصیت کی۔ بیٹی کے بارے کچھ نہیں کہا۔ شاید اسے یقین تھا کہ اس کی تربیت وہ کر چکی ہے اور اب باپ اس کے کام نہیں آ سکتا۔

میں نے تمثیلہ کا سوگ کم اور اپنی آرام دہ روٹین کے ٹوٹ جانے کا غم زیادہ کیا۔

مجھ پر جلد ہی یہ بات کھلی کہ تمثیلہ زندگی تھی، اس کا بہاؤ مسلسل تھا اور اثیلہ تازہ موسموں کی مانند تھی کہ بدلتے رہے، آتے جاتے رہے، لیکن کبھی بھولے نہیں۔ ان کے سحر سے میں کبھی آزاد نہ ہو سکا۔ میں نے اپنی طبیعت پر تمثیلہ کا کوئی بوجھ نہیں ڈالا۔ وہ اللہ کی نعمتوں میں سے تھی۔ جیسے میں نے اس کی دوسری نعمتوں کا کبھی شکر ادا نہیں کیا ایسے ہی تمثیلہ کا بھی شکریہ ادا کیے بغیر دفنا دیا۔

Check Also

Talaba O Talibat Ki Security Aur Amli Iqdamat

By Amirjan Haqqani