Pakhtunkhwa Ki Haqeeqat Aur Sooba Hazara Ka Fasana
پختونخوا کی حقیقیت اور صوبہ ہزارہ کا فسانہ
پاکستان کے سیاسی میدان میں ان دنوں 26 ویں آئینی ترمیم کی گونج سنائی دے رہی ہے جس میں کئی اہم تبدیلیاں زیر غور ہیں۔ ان میں ایک قابل ذکر شق صوبہ خیبر پختونخوا کے نام میں معنی خیز تبدیلی سے متعلق ہے۔ اس تبدیلی کے انکشاف کے بعد صوبہ ہزارہ کے قیام کا مطالبہ ایک بار پھر منظر عام پر آیا ہے جسے ایک چھوٹے مگر انتشار پسند گروہ نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس گروہ کی جانب سے نفاق پھیلانے کی یہ کوشش دراصل ایک غیر آئینی اور غیر حقیقی مطالبہ ہے جو ملک میں فرقہ واریت اور نسلی تعصبات کو ہوا دے سکتا ہے۔
پاکستان میں صوبوں کے نام رکھنے کا اصول تاریخی، جغرافیائی اور آئینی بنیادوں پر قائم ہے جہاں اکثریتی قومیتوں کو اپنے صوبوں کا نام دینے کا حق حاصل ہے۔ خیبر پختونخوا کی اکثریتی آبادی پختون ہے، جن کی زبان، ثقافت اور تاریخ اس صوبے کی تشکیل کی بنیاد ہیں۔ اسی بنیاد پر صوبے کا نام "پختونخوا" رکھنا نہ صرف پختون قوم کی شناخت کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ صوبے کی اکثریتی آبادی کا حق بھی ہے۔
اس اصول کی جڑیں پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ پنجاب کی مثال لیں، جہاں پنجابی قوم کی اکثریت ہے، حالانکہ وہاں سرائیکی، پوٹھوہاری اور دیگر زبانیں بولنے والے بھی موجود ہیں۔ اسی طرح بلوچستان میں بلوچ اکثریت کے باوجود وہاں پشتونوں سمیت دیگر اقوام آباد ہیں مگر صوبے کا نام بلوچ قوم کے نام پر ہے جو ان کا جمہوری حق ہے۔ سندھ بھی ایسی ہی ایک مثال ہے، جہاں سندھی قومیت کی اکثریت کی بنیاد پر صوبے کا نام رکھا گیا ہے، حالانکہ یہاں اردو بولنے والے اور دیگر نسلی گروہ بھی موجود ہیں۔
یہی اصول صوبہ پختونخوا کے معاملے میں بھی لاگو ہوتا ہے۔ پختونوں کی اکثریت کا حق ہے کہ ان کے صوبے کا نام ان کی شناخت کی نمائندگی کرے۔ مگر جب بھی اس نام میں کوئی تبدیلی زیر غور آتی ہے، صوبہ ہزارہ کا مطالبہ ایک مرتبہ پھر سر اٹھاتا ہے۔ ہزارہ ڈویژن میں رہنے والی بڑی تعداد افغان النسل پختونوں کی ہے جو اس صوبے کا حصہ ہیں اور پختون ثقافت سے منسلک ہیں۔ ان حالات میں صوبہ ہزارہ کا مطالبہ نہ صرف تاریخی اور ثقافتی طور پر بے بنیاد ہے بلکہ اس کا مقصد محض سیاسی مفادات حاصل کرنا ہے۔
دیگر صوبوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی بھی صوبے میں مختلف اقوام کا ایک ساتھ رہنا کوئی نئی یا غیر معمولی بات نہیں ہے۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں مختلف لسانی اور نسلی گروہ ایک ساتھ رہتے ہیں اور صوبے کے نام پر کوئی تنازع پیدا نہیں کرتے۔ صوبہ ہزارہ کا مطالبہ دراصل انتشار اور نفرت کی سیاست کا شاخسانہ ہے، جو ملک کے اتحاد اور یکجہتی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
آئینی طور پر پاکستان کے تمام شہریوں اور اقوام کو اپنے حقوق تسلیم کروانے کا حق حاصل ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ آئینی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اکثریتی قوم کے حقوق اور شناخت کا احترام کیا جائے۔ صوبہ پختونخوا کے معاملے میں پختون قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ ان کے صوبے کا نام ان کی اکثریتی حیثیت کو ظاہر کرے اور دیگر اقوام کو اس حق کو آئینی اور اخلاقی طور پر تسلیم کرنا چاہئے۔
صوبہ ہزارہ کے مطالبے کو ایک غیر آئینی، غیر حقیقی اور انتشار پھیلانے والے گروہ کی جانب سے دیکھا جانا چاہئے جو صرف اپنے مفادات کے لیے ملک اور صوبے میں فرقہ واریت اور تعصبات کو بڑھاوا دینا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ پاکستان کے استحکام اور ترقی کا راز اتحاد اور ہم آہنگی میں پوشیدہ ہے۔ نفاق اور تقسیم کی سیاست نہ صرف صوبہ خیبر پختونخوا کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
لہٰذا، صوبہ پختونخوا کا نام پختون قوم کا آئینی، اخلاقی اور جمہوری حق ہے، اور اس کو تسلیم کرنا ملک میں اتحاد اور یگانگت کو فروغ دینے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ صوبہ ہزارہ کے قیام کا مطالبہ نفاق کی بنیادی پر ایک غیر ضروری نعرہ ہے، جو زمینی حقائق اور تاریخی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہمیں اپنے اختلافات کو ہوا دینے کے بجائے ایک دوسرے کے حقوق اور شناخت کا احترام کرتے ہوئے ملک کو آگے بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔