Bangladesh Mein Marshal Law Ki Goonj
بنگلہ دیش میں مارشل لاء کی گونج
بنگلہ دیش میں حالیہ طلباء کے احتجاجی تحریک نے ملک کو شدید بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق، وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے فوج کے الٹی میٹم پر استعفیٰ دے دیا ہے اور بھارت فرار ہو چکی ہیں، جس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ احتجاج بنیادی طور پر حکومتی نوکریوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہوا تھا، جو 1971 کی جنگِ آزادی کے جنگجوؤں کے خاندانوں کے لیے مخصوص تھا۔ اس کوٹہ سسٹم کے تحت حکومتی نوکریوں کا 30 فیصد حصہ ان خاندانوں کے لیے مخصوص تھا، جسے بعد میں بڑھا کر 56 فیصد تک کر دیا گیا۔ اس فیصلے نے نوجوان نسل میں بدعنوانی اور میرٹ کی کمی کو فروغ دیا، جس کے نتیجے میں نوجوانوں میں شدید غم و غصہ پیدا ہوا۔ احتجاج کی شدت جولائی میں اس وقت بڑھی جب طلباء نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں مظاہرہ کیا۔ حکومت نے اس تحریک کو دبانے کے لیے پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی اور ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد احتجاج پورے ملک میں پھیل گیا اور ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے ابتدا میں مظاہرین سے مذاکرات کی کوشش کی، لیکن جب احتجاج کی شدت میں کمی نہیں آئی، تو انہوں نے فوج کے ذریعے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران، شیخ حسینہ واجد نے جماعت اسلامی نامی سیاسی تنظیم پر پابندی عائد کر دی اور احتجاجی مظاہرین کو دہشت گرد کہا۔ اس اقدام سے مظاہرین کے غم و غصے میں مزید اضافہ ہوا اور احتجاج کی شدت میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔ آخرکار شیخ حسینہ واجد کو استعفیٰ دینا پڑا۔ مظاہرین کا بنیادی مطالبہ شیخ حسینہ واجد اور ان کی کابینہ کا استعفیٰ تھا۔ اس کے علاوہ، انہوں نے حکومت کے خلاف عدم تعاون کی تحریک بھی شروع کی، جس میں ٹیکس نہ دینا اور بیرون ملک سے پیسے نہ بھیجنے کی اپیل شامل تھی۔
موجودہ صورتحال میں، ملک بھر میں سرکاری اور نجی دفاتر بند ہیں اور دارالحکومت ڈھاکہ میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔ مظاہرین نے وزیر اعظم ہاؤس کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور فوج کی موجودگی کے باوجود احتجاج جاری ہے۔ بنگلہ دیش میں طلباء کی احتجاجی تحریک نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کر دیا ہے۔ یہ احتجاج ایک اہم موڑ پر پہنچ چکا ہے اور ملک کے لیے ایک نازک مرحلہ ثابت ہو سکتا ہے۔ احتجاجی تحریک کی موجودہ صورتحال میں، ملک میں مارشل لاء نافذ ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے کیونکہ وزیر اعظم کا استعفیٰ مظاہرین کے احتجاج کے دوران فوج کی مداخلت پر ہوا۔
مارشل لاء کا نفاذ ملک کے جمہوری ڈھانچے کو مزید نقصان پہنچا سکتا ہے اور شہری آزادیوں پر بھی گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔ بنگلہ دیش کی تاریخ میں مارشل لاء کے نفاذ کی مثالیں موجود ہیں، اور موجودہ حالات میں اس کا امکان بڑھ گیا ہے۔ فوج کی مداخلت اور مارشل لاء کا نفاذ مظاہرین کے مطالبات کو پورا کرنے کے بجائے مزید مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
جمہوری حکومتوں کو چاہیے کہ پہلے ایسے اقدامات سے گریز کریں جو عوامی مفادات کے خلاف ہوں۔ عوامی احتجاجی مظاہروں میں عوام کے مطالبات بخوشی سنیں اور تسلیم کریں، اور ایسے روئے اور تشدد سے کنارہ کشی کریں جس سے دوسرے قوتوں کو مداخلت کا راستہ ملے اور مارشل لاء جیسی پوزیشن کا سامنا ہو۔ بنگلہ دیش کی موجودہ سیاسی صورتحال اور مظاہرین کی تحریک نے ملک کو ایک نازک مرحلہ پر پہنچا دیا ہے، جہاں فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں استحکام بحال ہو اور نوجوانوں کے مسائل حل کیے جا سکیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ میرٹ کی بنیاد پر نوکریاں فراہم کرنے اور بدعنوانی کے خلاف سخت اقدامات کرنے کے لیے فوری اصلاحات کرے، تاکہ ملک میں جمہوری اقدار کو محفوظ رکھا جا سکے اور مارشل لاء کے خطرے سے بچا جا سکے۔