Wirasat Ki Taqseem
وراثت کی تقسیم
پاکستانی معاشرے میں پائے جانے والے مسائل میں سے ایک بنیادی مسئلہ وراثت کی تقسیم کا ہے۔ اس معاملہ کو اتنا ہی غیر اہم سمجھا جاتا ہے جتنی سنجیدگی سے غور کا یہ متقاضی ہے۔ قرآن مجید اس معاملہ میں ہماری مکمل رہنمائی فرماتا ہے۔ سورت النساء کی آیت نمبر 10 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے (مفہوم) " وہ جو یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ تو اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے ہوئے (آتش کدہ) میں جائیں گے۔ (العیاذ باللہ)۔
اسی تناظر میں سورت النساء کی آیت نمبر 7 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (مفہوم) "مردوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابت والے اور عورتوں کےلئے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابت والے ترکہ تھوڑا ہو یا بہت، حصہ ہے اندازہ باندھا ہوا"۔ اسی طرح سورت النساء کی آیت نمبر 8 میں ارشاد ہوا(مفہوم) " پھر بانٹتے وقت اگر رشتے دار اور یتیم اور مسکین آجائیں تو اس میں سے انھیں بھی کچھ دے دو اور ان سے اچھی بات کہو"۔
مذکورہ بالا آیات سے جو پالیسی واضح ہوتی ہے اس کو 3 نکات کی صورت میں مرتب کیا جس سکتا ہے۔
1۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ وراثت کا مال ناحق کھانے پر بڑی سخت وعید ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے کسی فوت شدہ رشتے دار کا حق اس کے یتیم بچوں کو نہیں دیتا تو وہ اس وعید میں داخل ہے۔ وراثت کے مال میں ہیرا پھیری کے نتیجے میں جو مال حاصل ہوتا ہے اللّٰہ کے نزدیک وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرنے کے مثل ہے، لہٰذا اس سلسلہ میں حتی الامکان احتیاط واجب ہے۔ وراثت کی تقسیم کے لئے سب سے احسن عمل قرآن کریم سے رجوع ہے۔
سورت النساء کی آیات نمبر 11 اور 12 ایسی جامع آیات ہیں جن میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے میراث میں ہر ایک وارث کا حصہ کھول کھول کر بیان فرما دیا ہے۔ فی زمانہ اس حساب کی ضرورت ہو تو اس ویب سائٹ سے رجوع کریں
http://inheritance.ilmsummit.org/projects/inheritance/home.aspx
2۔ دوسرا نکتہ اللہ جل جلالہ کے اس عظیم الشان آفاقی اصول میں مضمر ہے کہ جن الفاظ میں مردوں کےلئے وراثت میں حصہ بیان فرمایا من و عن وہی الفاظ خواتین کے حصہ ہے لیے ارشاد فرمائے۔ یہ اصول اس بات کا غماز ہے کہ اسلام خواتین کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید کی دوسری سب سے بڑی سورت کا نام " سورت النساء" ہے یعنی خواتین کی سورت۔ " سورت الرجال" یا مردوں کی سورت نام کی کوئی سورت قرآنِ پاک میں نہیں۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا چنداں دشوار نہیں کہ یہ اصل میں اسلام کا پالیسی بیان ہے اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے معاملہ میں اسلام کا یہ موقف وراثت کی تقسیم تک موقوف نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
3۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اللّٰہ وتعالیٰ نے دور کے رشتے داروں، یتیموں اور مسکینوں کی بابت حکم فرمایا کہ انکو اپنی خواہش کے مطابق کچھ دے دیا جائے۔ اس سلسلہ میں کوئی مقدار مقرر نہیں کی گئی۔
ہمارے معاشرے میں وراثت کے معاملات کو انتہائی غیر موزوں طریقہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اکثر خواتین کی شادی ان کے ولی جائیداد تقسیم ہونے کے ڈر سے تا عمر نہیں کرتے۔ کئی ایسے صاحبان ہیں جو جان بوجھ کر اپنی ہمشیرگان کو ان کا جائز حق نہیں دیتے یا حساب میں ڈنڈی مارتے ہیں۔ ایسے عمل سے اجتناب کیا جانا چاہیے اور چند روزہ دنیاوی عارضی زندگی کے مفاد کے لئے آخرت کا دردناک عذاب مول نہیں لینا چاہیے۔ اللّٰہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اپنے احکامات اور اپنے محبوب ﷺ کہ طریقہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔