University Taleem Ki Zaboon Hali
یونیورسٹی تعلیم کی زبوں حالی
تعلیمی اداروں کا کسی بھی ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر دوسرے شعبہ کی طرح یونیورسٹیاں بھی تباہی سے دوچار ہیں۔ یونیورسٹی ڈگری لینے کا لئے صرف حاضری ضروری ہے۔ آج کل کے دور جدید میں بھی ہمارے ہاں خود چل کر یونیورسٹی آنا ضروری ہے۔ جو ایک انتہائی فضول تصور ہے۔ کلاس میں آنے والے اکثر خواتین و حضرات کی توجہ۔
استاد کے لیکچر کی بجائے ڈیسک کے نیچے چھپائے موبائیل فون کی طرف ہوتی ہے اور ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا، مگر حاضری کی بنیاد پر وہ ڈگری لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، لیکن دوسری طرف انڈسٹری میں کام کرنے والے پروفیشنلز اگر نوکری کی مجبوری کے باعث ذاتی طور پر حاضر نہیں ہوسکتے، تو وہ ڈگری کے لئے نا اہل قرار پاتے ہیں، جبکہ وہ آن لائن کلاسز لینے پر بھی آمادہ ہوتے ہیں۔
لیکن ایجوکیشن مافیا انہیں ایسا کرنے نہیں دیتا اور صرف فیس بٹورنے کے لئے ان کو نااہل کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں جب اساتذہ سے بات کی جائے تو وہ اپنی نوکری بچانے کے رونے دھونے شروع کر دیتے ہیں۔ کلاس روم میں سی سی ٹی وی کیمرے یوں نصب ہوتے ہیں، گویا ملک بھر کے دہشتگرد وہاں اکٹھے ہو کر دہشت گردی کی پلاننگ کرتے ہیں۔ اساتذہ سامنے سکرین پر بنی بنائی سلائیڈز چلا کر انھی کو پڑھ کر ٹوٹل پورا کرتے ہیں۔
امتحان میں بھی صرف حاشیہ، لکھائی، گرامر اور ترتیب کے نمبر ہیں، جواب کے اندر کیا لکھا ہے۔ اس کی کوئی اہمیت نہیں معزرت کے ساتھ کوئی استاد پیپر کو پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے، صرف سائز ناپنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ذاتی پسند اور ناپسند کی بنا پر امتحانی نمبروں کی تقسیم ہوتی ہے۔ یونیورسٹیوں کا واحد مقصد پیسا بنانا ہے، اور جس کی جیب میں دو روپے ہیں، یونیورسٹی کھول کر بیٹھ جاتا ہے بھلے پیشے کے لحاظ سے لوہار ہی ہو۔
کاپی پیسٹ پر زور ہوتا ہے، پلیجر ازم کے نام پر مارکیٹ میں موجود لوگوں کے کام کو چوری کر کے مقالہ جات لکھے جاتے ہیں۔ ایچ ای سی نامی ایک ادارہ ہے۔ جہاں صرف حاضریاں چیک کرنے کے لئے بھاری تنخواہوں اور مراعات پر لوگ ملازم ہیں۔ اور خود ساختہ ریٹنگ کے نام پر کوئی ملک و قوم کا کام نہیں کرسکتے۔ ریسرچ تھیسس میں اساتذہ 3 سے 4 ہفتے لگا کر یہ یقین کرتے ہیں کہ کہیں اس ریسرچ کا ہمارے معاشرے کو فائدہ نہ ہو جائے۔
اگر کوئی طالب علم یا طالبہ یہ جرات کر بھی لے اور کوئی عملی ریسرچ میں تجویز لے کر بھی جائے تو منظور نہیں کی جاتی اور اس سٹوڈنٹ کو ذلیل کیا جاتا ہے۔ اور پھر تقریروں اور اخباری بیانات میں ملک کے ترقی نہ کرنے کا رونا رویا جاتا ہے۔ ہماری صدر پاکستان، وزیر اعظم، آرمی چیف اور چیف جسٹس سے اپیل ہے کہ فوراً ایچ ای سی کی تحلیل کی جائے۔
یونیوسٹیوں کے کلاس رومز سے کیمرے اٹھا کر باہر پھینکا جائے اور حاضری کے نظام کو ختم کرکے کوڑے دان میں پھینکا جائے۔ جن اساتذہ کی ریسرچ کا عملی فائدہ نہ ہو انھی فورآ ہٹایا جائے، ورنہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔