Selab Ki Tabah Kariyan
سیلاب کی تباہ کاریاں
ہمارے بچپن سے ہم یہ سنتے آئے ہیں کہ بارش اللہ کی رحمت ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں آج بھی باران رحمت ہی متصور ہوتی ہے، پر ہمارے ہاں بدقسمتی سے پچھلے 75 سالوں سے یہ زحمت کا روپ دھارے ہوئے ہے۔ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں مثلاً دریائے کابل، دریائے جہلم، دریائے چناب، راوی، بیاس اور ستلج سے خیبر سے کراچی تک کا علاقہ سیراب ہوتا ہے۔
اتنے دریاؤں کے ہوتے ہر سال ملک میں سیلاب کا آنا اور اس کے فوراً بعد ملک کا خشک سالی کے شدید ترین عذاب میں مبتلا ہو جانا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہمارے ہاں پانی کے حوالے سے منصوبہ بندی کی شدید کمی ہے۔ بچپن سے ہم ارسا (IRSA)، پنجاب اریگیشن ڈپارٹمنٹ (PID) اور پنجاب اریگیشن اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (PIDA) کا نام سنتے آئے ہیں مگر حالات و واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ادارے غیر فعال ہیں اور ٹیکس دینے والی عوام کا پیسہ اپنی عیاشیوں کی نذر کر رہے ہیں۔
پچھلے 60 سالوں میں ایک بھی بڑا ڈیم نہیں بنایا گیا، جب کہ پڑوسی ملک نے 750 ڈیم اس عرصے میں بنائے۔ کالا باغ ڈیم، دیامیر بھاشا ڈیم، مہمند ڈیم اور اس ہی طرح کی 1500 ڈیم سائٹس ہمارے وطن عزیز میں موجود ہیں۔ ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ڈاکٹر شاکر صاحب اور ان جیسے بے شمار اریگیشن ایکسپرٹس کے ہوتے۔
آج تک ان ڈیمز کے منصوبوں پر عملدرآمد کیوں نہیں ہو سکا، کیوں نہیں ملک کے مفاد کے ان منصوبوں کی مخالفت کرنے والوں کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ اگر ایسا کیا جاتا تو کسی کو قومی سالمیت کے ان منصوبوں کی مخالفت کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ساری قوم ان ملک دشمن عناصر کے خلاف متحد ہو کر کھڑی ہو۔
گزارش ہے کہ ان بڑے ڈیمز کے ساتھ ساتھ چھوٹے ڈیمز کو فروغ دیا جائے۔ اس کی واضح مثال راولپنڈی ہے جہاں 7 بڑے اور دسیوں چھوٹے چھوٹے نالے ہیں جن پر ڈیم بنا کر نہ صرف پانی کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں بلکہ سستی بجلی پیدا کر کے توانائی کی ضروریات کو بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔ عوام کو پانی کے متعلق آگاہی دینے کی ضرورت ہے تاکہ عوام میں پانی کے ضیاع کو روکنے کا شعور پیدا کیا جا سکے۔
گاڑیاں دھونے میں پانی کی ایک عظیم مقدار ضائع ہوتی ہے، اس مقصد کے لئے بارش کے پانی کو زیر زمین ٹینکوں میں جمع کر کے استعمال کیا جائے۔ اگر پانی کے متعلق آگاہی پیدا نہ ہوئی تو خدانخواستہ 2025 تک ملک پانی کی شدید ترین کمی کا شکار ہو جائے گا اور قحط کی صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ وزیراعظم پاکستان اور ان کی کابینہ سے مطالبہ ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر تمام ڈیمز پر کام شروع کیا جائے تاکہ آئندہ برس سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہا جا سکے۔