1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asfar Ayub Khan/
  4. Islam Mein Khawateen Ka Maqam

Islam Mein Khawateen Ka Maqam

اسلام میں خواتین کا مقام

دین اسلام کی اشاعت کے لئے اللہ تعالی نے انبیا کرام کا سلسلہ جاری فرمایا اور اپنے محبوبﷺ کے ذریعے اس دین کو مکمل فرمایا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے مشعل راہ اپنے پیارے نبیﷺ کی ذات مبارکہ کو بنایا۔

یہ وہ دور تھا جسے تاریخ زمانہ جاہلیت کے طور پر جانتی ہے۔ جنگل کا قانون رائج تھا۔ طاقتور کمزوروں کو کھا جاتے تھے اور عورت کو انسان کی بجائے صرف ایک چیز تصور کیا جاتا تھا۔ ایسے ماحول میں اللہ تعالی نے "سورت النساء" یعنی خواتین کے معالات پر مبنی سورت نازل فرمائی جس میں عائلی مسائل کا حل رب العالمین نے بیان فرمایا۔ جائیداد میں عورتوں کے حصے کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا اور آپس میں کسی بھی قسم کی پردہ داری کا خاتمہ کرنے کا حکم صادر فرمایا۔

عورت کی طرف سے بے وفائی کا یقین ہونے پر بھی اس سے بستر الگ کرنے کا حکم دیا تاکہ خاتون کو اپنی غلطی کا احساس ہو اور وہ واپس اپنی وفاداری کی ڈگر پر آجائے۔ طلاق کو جائز قرار ضرور قرار دیا مگر ساتھ ہی انتہائی ناپسندیدہ عمل بھی گردانا۔ نکاح اور مہر کے معاملات میں عورت کے تمام حقوق کھول کھول کر بیان فرمائے۔ مردوں کو بیک وقت 4 شادیوں کی اجازت ضرور مرحمت فرمائی مگر ساتھ ہی ایک پر اکتفا کرنے کا مشورہ دیا۔

حضور پاک ﷺ نے کسی بھی مرد پر اس کی ماں کا حق 75 فیصد جبکہ اس کے باپ کا حق 25 فیصد قرار دیا۔ اپنی بیوی کے حق میں اچھے انسان کو سب سے بہتر انسان گردانا۔ جائیداد میں خواتین کا حصہ نہ دینے والوں کو جہنم کی وعید سنائی۔ حضورﷺ تمام غزوات میں اپنی ایک اہلیہ کو ضرور اپنے ہمراہ رکھتے اور اہم امور پر ان سے مشورہ لیتے تھے۔

پیغمبرﷺ کے شہرہ آفاق خطبہ حجۃ الوداع میں، جسے انسانیت کے منشور کا درجہ حاصل ہے، عورتوں سے حسن سلوک کا حکم دیا۔ کسی بھی مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کی عزت کو، اس دن، اس مہینے اور اس جگہ کی طرح حرام کیا، جس جگہ پر انسانیت اپنے رب کے سامنے روز محشر کھڑی ہوگی۔

ہمارے وطن عزیز مملکت خداداد پاکستان میں خواتین کی زندگی اجیرن ہے۔ کسی عورت کی عزت محفوظ نہیں۔ جنسی ہراسگی کے واقعات روز کا معمول ہیں۔ اعلی تعلیم حاصل کرنے والی اور جاب یا کاروبار کرنے والی خواتین ہر جگہ مردوں کی ہوس زدہ نظروں کا شکار بنتی ہیں اور کئی انسان نما بھیڑئے انھیں اپنی نا آسودہ خواہشات کی بھینٹ چڑھانے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں اور ایک آمر کے بنائے ہوئی ایک بے تکے حدود آرڈینینس کی آڑ لے کر متاثرہ خاتون کو ہی ذمہ دار ٹہرا دیا جاتا ہے۔

ہندووں کے زیر اثر معاشرے میں رہنے کی وجہ سے خواتین کو جائداد میں حصہ دینے کا کوئی عمومی رواج نہیں۔ بے شمار ڈاکٹر، انجینئر اور وکیل لڑکیاں شادی کے بعد گھروں میں بیٹھی ہیں کیونکہ سسرال والوں کو بہو کا کام کرنا پسند نہیں۔ اسی غلط سوچ کے باعث ہم 51 فیصد آبادی کو مفلوج بنائے بیٹھے ہیں۔ خدارا اس سوچ کو بدلیں اور خواتین کو بھی جینے کا حق دیں، تاکہ وہ بھی سکھ کا سانس لیں اور آرام و سکون سے اپنی زندگیاں گزار سکیں۔

Check Also

Pakistani Cubic Satellite

By Zaigham Qadeer