Hamare Nafsiyati Khauf
ہمارے نفسیاتی خوف
اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مخلوقات میں انسان سب سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ انسان کی بہت سی خصوصیات، جبلت سے جڑی ہیں۔ ان خصائص میں، وہ باقی جانوروں سے چنداں مختلف نہیں۔ ان میں تناول، اخراج، نیند اور جنسی ضروریات کا حصول قابلِ ذکر ہیں۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ بنی نوع انسان کو علم سے آراستہ کیا گیا اور مسجود ملائک کے عالیشان مقام پر ایستادہ کیا گیا۔ انسان کو عقل و شعور سے نوازا گیا اور اسی خصوصیت نے اسے جانوروں سے ممتاز کیا۔
لیکن جس طرح گاڑیاں بنانے والی کمپنی، گاڑی کو چلانے کے لئے اس کی ہدایاتی کتاب ساتھ میں جاری کرتی ہے، بعینہ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے الہامی کتابوں کو نازل کیا اور ان کے آخری ایڈیشن یعنی قرآن کریم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا۔ قرآن مجید کے اندر انسان کی گوناگوں خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ ان کے مطابق انسان جلدباز، ناشکرا، جھوٹا، جھگڑالو، نافرمان، دغا باز اور ڈرپوک ہے۔ اس مضمون میں ہم انسانوں کو لاحق خوف اور ان پر قابو پانے کے طریقوں پر چرچا کریں گے۔
سب سے بڑا خوف، کھونے کا خوف ہے۔ روپے کھونے کا ڈر، ساتھی کھو جانے کا خوف، بے گھر ہو جانے کا اندیشہ اور گاڑی چوری ہونے کا ڈر اسی طرح کے خوف کی شکل ہے۔ اس خوف کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ڈر پر قابو پانے کے لئے اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک، قسمت پر یقین رکھنا از حد ضروری ہے۔ اچھی اور بری تقدیر پر ایمان، تمام مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے، اور اس پر کلی طور پر یقین رکھتے ہوئے مزید محنت جاری رکھنا ہی پنپنے کا ذریعہ ہے۔
دنیاوی مال و اسباب کھو جانے پر واویلا کرنا مسلمانوں کا شیوہ نہیں۔ نام نہاد عزت لٹ جانے کا ڈر ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح اعلان فرمایا کہ عزت اور ذلت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اس کے باوجود ہم اپنی جھوٹی انا اور عزت کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ اچھے گھر، بڑی گاڑی اور بینک بیلنس کو عزت کا نام دے دیا گیا ہے۔
اور ان جھوٹے جذبات کی تسکین کے لئے انسان اپنی زندگیوں کو عذاب بنائے بیٹھے ہیں۔ اس ڈر کا سامنا، اپنی اصل کو جان کر کیا جا سکتا ہے۔ کسی معروف ادیب نے کیا خوب کہا ہے کہ خود شناسی کے بنا خدا شناسی کا دعویٰ عبث ہے۔ جو آپ ہیں، وہ بن جائیں اور حقائق کو تسلیم کر لیں۔ آپ کی زندگی بدل جائے گی، آزمائش شرط ہے۔
نوجوان نسل میں جو سب سے بڑا خوف پایا جاتا ہے وہ ناکامی کا ڈر ہے۔ اس کے زیر اثر وہ کوئی بھی نیا کام کرنے سے گھبراتے ہیں، حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ ناکامی، کامیابی کی کنجی ہے۔ تھامس ایڈیسن نے کہا تھا کہ جب میں 100 طریقوں سے بلب بنانے میں ناکام رہا تو مجھے معلوم ہوا کہ 100 طریقوں سے بلب نہیں بنتا۔ اس سوچ کے نتیجے میں آخرکار وہ بلب بنانے میں کامیاب ہو گیا جو آج تک ہماری زندگیوں کا لازمی جزو ہے۔
ہر انسان کو موت کا خوف ہے۔ یہ ایک بشری تقاضہ ہے۔ اپنی زندگی کو بچانا ہر ایک انسان پر فرض ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان موت کا خوف سر پر سوار کر لے۔ موت کا دن اور جگہ متعین ہے جس کے بارے میں انسان بے بس ہے لہذا اس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اپنے اندر موجود خوف کو باہر نکالئے، اس کا سامنا کیجیئے تاکہ آپ زندگی میں آگے بڑھ سکیں۔