Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asadullah Raisani
  4. Tawakal Allah Dairy Farm

Tawakal Allah Dairy Farm

توکل ﷲ ڈیری فارم

حاجی عبدالرحیم، توکل ﷲ ڈیری فارم کے مالک ہیں۔ حاجی صاحب کے 8 بچے ہیں جبکہ اُنکی بیوی پھر اُمید سے ہے۔ حاجی صاحب کی دو وجہ شہرت ہیں، ایک، انکا ماننا ہے کہ رزق کا ضامن ﷲ ہےاور وہ اس حوالے سے اکثر توکل ﷲ پر لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں۔ حاجی صاحب کی دوسری وجہ شہرت یہ ہے کہ یہ دودھ میں پانی بہت ملاتے ہیں۔ حاجی صاحب کے ساتھ کام کرنے والے مزدور کہتے ہیں، حاجی صاحب اتنی ملاوٹ کرنے کی ایک ہی وجہ بتاتے ہیں، "بچے بڑے ہورہے ہیں، مہنگائی بھی دن بدن بڑھ رہی ہے، خالص دودھ بیچ کے گُزارہ نہیں ہوتا"۔

پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 6.42 فیصد ہے، 36 فیصد سے زائد، یعنی ملک کا ایک چوتھائی سے زیادہ آبادی خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے، 75 فیصد پاکستانی ڈپریشن یعنی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، ملک میں غُربت کی شرح 37 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ یونی سیف کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 30 لاکھ کے قریب بچے اسکول سے باہر ہیں۔ جب کہ آبادی کے اضافے کی شرح 1.8 فیصد ہے، جس کا مطلب ہےکہ ہر سال پاکستان کی آبادی میں 40 سے 42 لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔

سونے پہ سہاگہ یہ کہ بچے پیدا کرنے کی سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ رزق کا ضامن اللہ ہے۔ مگر وہی توکل وہی ایمان وہی عقیدہ رزق کماتے وقت کمزور پڑ جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے کرپشن، بے ایمانی اور دو نمبری ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ان بےایمانیوں کی ایک عام وجہ یہی بتائی جاتی ہے کہ" گزارا نہیں ہوتا"۔ سوال یہ بنتا ہے کہ وہ توکل وہ ایمان کہاں چلا جاتا ہے جو بچے پیدا کرتے وقت آپ کے پاس ہوتا ہے لیکن بچے پیدا کرنے کے فوراً بعد آپ کے اندر سے کہیں غائب ہو جاتا ہے۔

اس سے بھی عجیب اور دلچسپ بات یہ کہ مزدور طبقہ کے ہی بچے اکثر زیادہ ہوتے ہیں جو مشکل سے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ یہ بچے پیدا کرنے سے پہلے یہ سوچتے ہی نہیں کہ ان کو تعلیم کیسے دیں گے، ان کے صحت کا خرچہ کیسے پورا ہوگا، ان کے اوڑھنے بچھونے کا خرچہ کیسے پورا ہوگا۔ اس سے بھی بڑا ظلم یہ کہ اکثریت یہ سوچتی ہی نہیں کہ اتنے بچوں کے بیچ میں انصاف قائم کرنا کتنا مشکل ہوگا، ان سب کو برابر حقوق دینا کتنا مشکل ہوگا، سب سے اہم بات، کیا اتنے بچوں کی اچھی پرورش کرنا ممکن ہوگا بھی کہ نہیں۔ اسی لیے اکثر بڑے شہروں میں اب یہ عام ہے کہ بچے سکول جانے کی عمر میں ٹافیاں، ببل، تسبیح اور یسین شریف بیچتے نظر آتے ہیں یا بوٹ پالش کر رہےہوتے ہیں یا کسی ریڑھی پہ کام کر رہے ہوتے ہیں یا پھر کسی کے گھر میں ملازم ہوتے ہیں۔

اگر تو آپ حلال کمائی سے اپنے بیوی بچوں کو پال سکتے ہیں، ان کے اوڑھنے بچھونے کا انتظام کر سکتے ہیں، ان کی صحت کے خرچے اُٹھا سکتے ہیں، اپنے بچوں کے درمیان انصاف قائم کر سکتے ہیں، ان کی اچھی پرورش کر سکتے ہیں تب تو آپ شوق سے بچے پیدا کیجئے۔ لیکن اگر آپ بچے پیدا کرتے وقت اس بات پہ توکل کرتے ہیں کہ رزق کا ضامن اللہ ہے لیکن بچے پیدا ہونے کے بعد نماز میں جلدی دکھاتے ہیں تاکہ جا کے دودھ میں پانی ملا سکیں کیونکہ اس کے بغیر گزارا نہیں تو خدارا توکل جیسے پاک صاف لفظ کو بدنام و پلید نہ کریں۔

حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! کیا میں اونٹ کو پہلے باندھ دوں، پھر اللہ پر توکل کروں یا چھوڑ دوں، پھر توکل کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے باندھ دو، پھر توکل کرو۔

اس حدیث کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اُونٹ کو باندھنا اس سلسلے میں ممکنہ طور پہ یہی ہوگا کہ اگر آپ اور آپ کی شریکِ حیات بہترین صحت کے مالک ہیں، اسطاعت رکھتے ہیں اور اپنے آنے والے بچوں کی صحت، تعلیم اور نان نفقے کی ذمہ داری بخوبی نبھا سکتے ہیں، ان کے بیچ انصاف قائم رکھ سکتے ہیں، ان کی اچھی پرورش کر سکتے ہیں تب تو آپ اللہ تعالٰی پر ضرور ضرور توکل کریں۔ اور اگر آپ نے توکل کا معنٰی یہ نکالا ہے کہ آپ یا آپکی شریکِ حیات بھلے ہی صحت کی خرابی کا شکار ہیں، مالی مشکلات سے دو چار ہیں لیکن آپ کو پھر بھی بچے پیدا کرنے ہیں تو معذرت کے ساتھ آپ اب تک توکل کے فلسفے کو نہیں سمجھے۔

اس غلط فہمی کی وجہ سے یہ عام ہے کہ اکثر جو گھر کا بڑا بیٹا ہوتا ہے اس سے قربانی مانگی جاتی ہے۔ تعلیم کی قربانی، اپنی خواہشات کی قربانی، جذبات کی قربانی، تاکہ وہ اپنے بہن بھائیوں کی طرف ذمہ داریاں نبھا سکے، باپ کا ہاتھ بٹا سکے، جلدی شادی کرکے ماں کے لیے کوئی بہو لا سکے جو گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنے میں اُسکی ماں کا ہاتھ بٹا سکے اور وہ ایک ایسی دوڑ کا حصہ بن جاتا ہے جس میں وہ اپنی مرضی سے شامل ہی نہیں ہوا۔ اس سے بھی بڑا ظلم یہ کہ جو شخص اس روایت کا شکار ہے بجائے اس رواج کو توڑنے کے وہ خود بھی اکثر اس روایت کو جاری رکھتا ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ ہمارے معاشرے میں کئی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے کئی حج کئی عمرے کیے ہیں، جن کا نام بھی اللہ تعالی کے کسی نام یا صفت پہ، صحابہ کے نام پہ یا پھر حضور اقدس ﷺ کے کسی نام پہ ہے، ان کے کاروبار کے نام بھی اللہ تعالی کے کسی نام یا صفات کے اوپر ہیں اور وہ بچے پیدا کرتے وقت" توکل ﷲ یا رزق کا ضامن ﷲ ہے" کا ورد بھی کرتے ہیں لیکن جب آپ اُن کے کردار دیکھیں گے تو وہ بے ایمانی بھی کرتے ہیں، دودھ میں ملاوٹ بھی کرتے ہیں، وہ جھوٹ بھی بولتے ہیں، غیبت بھی کرتے ہیں۔ تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں گفتار میں تو دین بہت ہے مگر جب کردار کی بات آتی ہے تو ہماری اکثریت دین سے دینی تعلیمات سے بالکل خالی ہے۔

حاجی عبدالرحیم کا قِصہ فرضی ہے۔

Check Also

Wo Shakhs Jis Ne Meri Zindagi Badal Dali

By Hafiz Muhammad Shahid