Quetta Walay Punjabi (1)
کوئٹہ وا لے پنجابی (1)
بلوچستان میں رہنے والوں کی اکثریت بلوچ اور پشتونوں کی ہے۔ یہ دونوں اقوام صدیوں سے موجودہ بلوچستان میں رہائش پزیر اور آباد ہیں، ان کا گزر بسر صدیوں سے مال مویشی پالنے، زمینداری اور چھوٹے موٹے کاروبار سے ہوتا رہا ہے۔ یہاں تک کے صنعتی انقلاب بھی بلوچستان میں اپنے وقت سے بہت بعد میں پہنچا۔ قصہ مختصر یہ کہ یہاں کی اکثریت کبھی ملازمت ذہنیت کی تھی ہی نہیں۔ کام چھوٹا ہو یا بڑا یہ اپنے کاروبار میں مگن رہنے والے لوگ تھے۔
انگریز کی آمد جس طرح دنیا کے دیگر حصوں میں تبدیلی کا باعث بنی، بلوچستان بھی ان تبدیلیوں کو نہیں روک پایا۔ جہاں انگریز کے آنے سے اس خطے میں مثبت تبدیلیاں آئیں، جیسے پرنٹ میڈیا متعارف ہوا، جدید سواریاں لائی گئیں، ریل کا بہترین نظام آیا اور قبائلی نظام کے مقابلے میں جدید نظام لایا گیا وغیرہ وغیرہ۔ وہاں منفی تبدیلیوں سے بھی اس سرزمین کو اثر انداز کیا گیا، جیسےکہ انگریز کے آنے سے یہاں کے جمہوری اقداروں پر چلنے والے شفاف قبائلی نظام میں ملاوٹ کی گئی، اس قبائلی نظام کو جمہوری کی بجائے موروثی بنا دیا گیا، تاریخ میں پہلی بار پٹھانوں کو مذہب جبکہ بلوچوں کو زبان و قبائلیت کے بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازشیں ہوئیں، ایسے نظام کو فوقیت دی گئی جس میں سب سے زیادہ فائدہ انگریز اور انگلستان کا تھا، اس دور کے مختلف معتبرین، سردار، یہاں تک کہ خان بھی مارے اور مروائے گئے۔
اس دور میں انگریز کو اپنا سرکاری نظام چلانے کے لیے ملازموں کی ضرورت تھی۔ چونکہ یہاں کے لوگ اس اعتبار سے تیار نہیں تھے اور نہ ہی پڑھنے لکھنے کا رجحان اتنا تھا کہ جتنا سابقہ ہندوستان کے دیگر حصوں میں تھا، اس وجہ سے انگریز نے موجودہ پاکستان اور ہندوستان کے دیگر حصوں سے یہاں افسر تعینات کیے تاکہ یہاں جدید نظام چل سکے۔ چونکہ یہ لوگ ملازمت سے وابستہ تھے تو یہاں کے مقامی لوگوں کو ان کی موجودگی پر زیادہ خدشات نہ تھے مگر انگریزوں کے خلاف ایک نفرت ضرور تھی۔
جہاں اس خطے میں ترقی اور جدت آرہی تھی وہاں ایسے کئی خاندان بھی یہاں آباد ہونے لگے جو بنیادی طور پر یہاں سے نہیں تھے، ان آباد کاریوں کے خلاف خدشات کے خاطر خواہ شواہد نہیں ملتے کیونکہ ان کی اکثریت نے بالواسطہ یا بلاواسطہ بلوچستان کو اپنا گھر و مسکن مان کر اس کی خدمت کی، آج بلوچستان میں ایسے خاندان بھی آباد ہیں جن کےآباؤ اجداد نسلوں سے یہاں رہتے ہیں۔
ایک ایسے خاندان کے بارے میں مجھے حال ہی میں پتہ چلا کہ وہ یہاں قریب سن 1850 عیسوی سے آباد ہے۔ یقیناً ان کے آباؤ اجداد بلوچستان کو اپنا گھر تسلیم کر چکے تھے تبھی ان کی نسلیں اس سرزمین پر آباد ہیں۔ جہاں کئی خاندانوں نے جن کی اکثریت پنجابیوں کی تھی بلوچستان کے لوگوں کی خدمت کی وہیں کچھ ایسے افسران بھی یہاں آباد ہوئے جو بلوچستان سے زیادہ انگریزوں کے وفادار تھے اور اس سرزمین کے استحصال کے لیے انگریزوں کے اعلٰی کار بنے، جن کی وجہ سے بلوچوں میں باالخصوص اس ملازمت پیشہ طبقے کےخلاف ایک خدشے کا جذبہ بہرحال موجود تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انگریز کی پکڑ اس خطے میں کمزور ہوئی، دو عظیم جنگوں کے سبب انگلستان اتنا کمزور ہوا کہ اس نے یہاں سے نکلنے میں ہی سمجھداری جانی، 1947 میں پاکستان وجود میں آیا اور اس کے وجود میں آتے ہی مصیبتوں کے پہاڑ اس نو مولود ملک پر ٹوٹ پڑے۔ ان مصیبتوں میں ایک بڑی مشکل وہی تھی جس کا سامنا انگریز کو تھا کہ بلوچستان کے لوگوں کی ذہنیت ملازمت پیشہ نہیں اور جدید تعلیمی نظام بھی اس خطے میں نہیں پہنچا اور نہ ہی انگریز نے اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ کوشش کی۔
مجبوراً سندھ، پنجاب، خیبر پختون خواہ حتٰی کہ آزادکشمیر سے افسر اور دیگر ملازم بلوچستان میں تعینات کیے گئے۔ جبکہ یہاں کے مقامی لوگوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی ان اداروں میں۔ جہاں باہر سے آئے ہوئے کئی ملازموں نے بلوچستان کو اپنا گھر بنایا وہاں کئیوں کا رویہ مقامی لوگوں کے ساتھ درست نہیں تھا۔ جسکی وجہ سے جو نفرت پہلے انگریزوں کے خلاف تھی وہ اب سیٹلرز، بالخصوص پنجابیوں کے خلاف ہونے لگی۔ کیونکہ مغربی پاکستان میں اکثریت پنجابیوں کی تھی، چاہے وہ سیاست ہو، بیوروکریسی، فوج یا پھر کوئی اور ادارہ پنجابی اکثریت میں تھے۔ وہاں مشرقی پاکستان، جو موجودہ بنگلہ دیش ہے، میں بنگالی اس پنجابی اکثریت کے خلاف تھے تو یہاں بلوچوں میں شدید تشویش اور غم وغصہ تھا اس کے خلاف۔
1955 میں جب پاکستان میں ون یونٹ سکیم لائی گئی تو بلوچستان مشرقی پاکستان کا ایک ڈویژن، قلات ڈویژن بنا۔ 1955 سے 1970 تک موجودہ پاکستان ایک ہی صوبہ تھا تو اس دوران بھی پاکستان کے مختلف حصوں سے ملازموں کی تعیناتیاں و تقرریاں بلوچستان میں ہوتی رہیں لیکن اُس وقت کے حُکام سے گناہِ کبیرہ یہ ہوا کہ اُنہوں نے مغربی پاکستان کا دارالحکومت لاہور کو قرار دیا۔ اب ایک سردار جو اپنے قبیلے کا بڑا ہوتا ہےچھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے میلوں دور گھنٹوں سفر کرکے لاہور جاتا۔ وہاں ان افسروں کی جانب سے کئی سرداروں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا اور انہیں گھنٹوں انتظار بھی کروایا جاتا۔
یہ سردار معتبرین جب لاہور سے واپس آکر ان پنجابی افسران کے ناروا سلوک کی روداد سناتے، جسے بلوچی و براہوی میں حال، کہتے ہیں، ان میں پنجابیوں کے خلاف مزید نفرت بڑھتی۔ نفرت کی ایک اور بڑی وجہ یہ تھی کہ کئی افسران بالخصوص پنجابی اور کشمیری یہاں کے قبائلی طور طریقوں سے واقف نہیں تھے، جبکہ اس نفرت کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ بلوچستان میں تعصب گھر کرنے لگ گیا تھا اور اب کسی بھی دوسری جگہ سے آنے والے کو باہر کا بندہ مانا جانے لگا تھا۔
جاری۔۔