Quetta Ko Parhne Do
کوئٹہ کو پڑھنے دو
میں نے حال ہی میں اس کالم کے لیے مختلف سرکاری اسکولوں کے طالب علموں کے ساتھ بات چیت کی۔ میرے پاس ان سے پوچھنے کے لیے صرف دو سوالات تھے: "کیا آپ کے اسکولوں میں سرکاری معائنہ ہوتا ہے؟" اور "اگر ہاں، تو اس طرح کے معائنے کے دوران آپ کے اساتذہ کا عام ردعمل کیا ہوتا ہے؟" ان میں سے تقریباً سبھی، چاہے وہ جماعت تیسری کے ہوں یا دسویں کے انکے ایک جیسے جوابات تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے اسکولوں میں معائنے بہت کم ہوتے ہیں۔
تاہم، جب معائنہ ہوتا ہے تو ان کے اساتذہ کو عام طور پر پیشگی اطلاع دی جاتی ہے۔ یہ پیشگی اطلاع اسکولوں کی معمولی تزئین و آرائش کا باعث بنتی ہے، طلباء کے سزا کے لیے استعمال ہونے والی لاٹھیاں الماریوں میں چھپادی جاتی ہیں، اور بہترین اور ذہین طلباء سے پہلی دو قطاریں بھرنے کو کہا جاتا ہے۔ معائنہ کا دن اسکولوں میں ایک پارٹی کی طرح محسوس ہوتا ہے، کیونکہ اساتذہ معائنہ کرنے والے افسران کو سموسے، چائے اور کولڈ ڈرنکس پیش کرتے ہیں۔
میرے کئے گئے فیلڈ ورک سے جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ واضح ہیں: کوئٹہ شہر میں معمول کے معائنے کی کمی کی وجہ سے سرکاری سکولوں کی اکثریت میں تعلیم کا معیار کافی پست ہے، اور حوصلہ شکنی اور قانونی ممانعت کے باوجود جسمانی سزا کا رواج کم از کم سرکاری اسکولوں میں رائج ہے۔ حالیہ مطالعات میں بچوں کے تعلیمی نتائج اور ان کے بعد کی بالغ زندگیوں پر کم معیاری تعلیم اور جسمانی سزا کے گہرے اور دیرپا اثرات کو اجاگر کیا گیا ہے، جن پر بحث درج ذیل ہے۔
سب سے پہلے، تعلیم کا کم معیار تعلیمی سرگرمیوں میں خراب کارکردگی کا باعث بنتا ہے۔ ناقص وسائل اور غیر تربیت یافتہ اساتذہ کی وجہ سے تعلیم کا معیار پست سے پست تر ہوتا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں امتحانات میں خراب کارکردگی، ڈراپ آؤٹ کی شرح میں اضافہ اور کالج اور جامعات میں بھی طلباء کو تعلیمی اعتبار سے بہت مشکلوں کا سامنا رہتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ معیاری تعلیم انسانی ذہن کی نشوونما کے لیئے انتہائی اہم ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ کم معیاری تعلیمی اداروں میں بچوں کی سیکھنے کی رفتار کم ہوتی ہے، اور یہ ان کی سیکھنےکی صلاحیت، تجزیاتی استدلال اور ذہانت کو سست کر دیتا ہے۔ سوم، کم معیاری تعلیم کے معاشی اثرات بھی دور رس ہیں۔ معیاری تعلیم کی عدم موجودگی کم آمدنی والے روزگار کے حصول کے امکانات کو بڑھاتی ہے، جس کے نتیجے میں کافی سارے طلباء آگے کی زندگی میں معاشی مسائل کا شکار رہتے ہیں۔
جہاں تک جسمانی سزا کے اثرات کا تعلق ہے، وہ بھی گہرے اور دور رس ہیں۔ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جسمانی سزا بچوں میں جارحیت اور غیر سماجی رویے جنم دیتا ہے۔ امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جن بچوں کو جسمانی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں پرتشدد رویے کا زیادہ امکان ہوتا ہے اور انہیں صحت مند تعلقات بنانے میں دشواری ہوتی ہے۔ دوم، جسمانی سزا کے نفسیاتی اثرات بھی گہرے ہوتے ہیں۔ یہ تشویش، ڈپریشن، اور دیگر دماغی صحت کے مسائل کی اعلٰی شرح سے منسلک ہے۔ جسمانی سزا کا نشانہ بننے والے بچوں میں اکثر خود اعتمادی کم ہوتی ہے۔
سوم، جسمانی سزا کے تعلیمی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ سیکھنے کے مخالف ماحول پیدا کرتا ہے، جس کی وجہ سے اکثر طلباء میں کچھ نیا سیکھنے کی طلب نہیں رہتی۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جن اسکولوں میں جسمانی سزا رائج ہے ان کے مقابلے میں وہ اسکول کئی بہتر طلبا تیار کرتے ہیں جہاں ایسی کسی سزاکا تصور نہیں۔ مزید یہ کہ جسمانی سزا کے اثرات جوانی تک ان طلباء پر ہو تے ہیں۔ جن بالغ افراد کو بچپن میں جسمانی سزا دی گئی ہوتی ہے اُن میں مجرمانہ رویے، ذہنی صحت کے مسائل اور اپنے بچوں کے ساتھ تشدد کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
مجموعی طور پر، تعلیم کا کم معیار اور جسمانی سزا بچوں کی زندگیوں میں شدید مسائل کا باعث بنتی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں معائنے نہ ہونے کی وجہ سے اساتذہ میں جوابدہی کا فقدان پیدا ہوا ہے، جو بالآخر تعلیم کے معیار پہ سمجھوتے کا باعث ہے اور ملک میں قانونی ممانعت کے باوجود جسمانی سزا دینے والے اساتذہ پر کوئی خاطر خواہ قانونی کاروائی کی مثال نہیں۔ میں کچھ عرصہ قبل ایک سکول کے استادسے ملا جنکی ایک بات مجھے اکثر یاد آتی ہےکہ: "جسمانی سزا کو این جی اوز کے دباؤ پر ختم کیا گیا تھا، ورنہ ہم اساتذہ کبھی بھی اس کو ختم کرنے کے حق میں نہیں تھے"۔ ان صاحب نے پوری بحث میں بڑے اعتماد کے ساتھ جسمانی سزا کے صحیح ہونے پہ جواز پیش کیے اور بضد رہے کہ جب تک بچوں کو جسمانی سزا نہ دی جائے وہ نہیں پڑھتے۔ تاہم، جیسا کہ اوپر زیر بحث آیا، تحقیق جسمانی سزا پر پابندی کے فیصلے کی حمایت کرتی ہے کیونکہ اس سے بچوں کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اسلیئے حکام کی طرف سے سرکاری اسکولوں کا اچانک معائنہ معمول بن جانا چاہیے، اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ایک سال کے اندر کوئی بھی اسکول بغیر معائنہ کے نہ رہے۔ معائنہ کرنے والی ٹیمیں اکثر سکول کے ریٹائرڈ اساتذہ پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اس رواج کو بدلنے کی ضرورت ہے، عوامی نمائندوں کو بھی ان انسپکشنز میں گہری دلچسپی لینی چاہیے اور مختلف متعلقہ محکموں کے لوگوں کو بھی معائنہ کرنے والی ٹیموں کا حصہ بننا چاہیے۔ ایسے اساتذہ جو لاٹھیوں کے ساتھ پائے جائیں یا جنکے متعلق طالب علموں کی طرف سے جسمانی سزا دینے کی اطلاع دی جائے انہیں قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہیے۔ حالیہ قوانین کے مطابق کسی بھی استاد کو کسی بچے پرجسمانی سزا کی اجازت نہیں اور خلاف ورزی کی صورت میں ایک سال تک قید، پچاس ہزار روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ اس قانون پر عمل در آمد ہونا چاہیے۔
مزید یہ کہ باقاعدگی سے بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے اساتذہ کے لیے مناسب تربیت ضروری ہے۔ مزید برآں، ہر استاد کو سالانہ نفسیاتی امتحان سے گزرنا چاہیے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا وہ بچوں کو پڑھانے کے قابل ہیں یا نہیں۔ کیونکہ چھوٹے بچے بہت سے اثرات کا شکار ہوتے ہیں اور منفی رویے نمایاں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ فیلڈ ورک کے دوران بہت سے بچوں نے شکایت کی کہ جب وہ اساتذہ سے سوال پوچھتے ہیں تو واساتذہ غصے میں آ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سےایسے اساتذہ کی تعداد بہت کم ہے جو سوال کرنے پہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اس لیے اس شعبے میں بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بچے ملک کا مستقبل ہیں اور کوئی بھی عقلمند قوم اپنے مستقبل کوبے قدری کی نگاہ سے نہیں دیکھتی۔