Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asadullah Raisani
  4. Jehad e Akbar

Jehad e Akbar

جہادِاکبر

آپ نے اکثر سنا ہوگا "ہم سے پہلے کی حکومت کی وجہ سے ہمیں سخت فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں، ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہم پر کڑا وقت آیا ہے لیکن ہم ان کی غلطیاں سدھاریں گے اور ان سے بہتر ثابت ہوں گے"۔ مگر افسوس کہ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت سے بدتر ثابت ہوتی ہے۔ اس بد سے بدتر حکومت اور اقتدار کی مختلف وجوہات بتائی اور مانی جاتی ہیں۔ کئی ماہرین کہتے ہیں کہ حکومتی ارکان کی اکثریت کرپٹ ہے، کئی اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی اکثریت نااہل ہے، کُچھ دونوں وجوہات کو صحیح سمجھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ماہرین کی ایک بڑی اکثریت یہ بھی مانتی ہے کہ انہیں فیصلے کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے تو ملک کیسے سدھاریں گے وغیرہ وغیرہ۔

جب کہ میرا خیال یہ ہے کہ یہ سب اثرات ہیں۔ بد سے بدتر قیادت و حکومت کی ایک بڑی وجہ اختیار کا غلط استعمال ہے۔ ہمارے کئی عہدیداران جان بوجھ کر اختیار کا صحیح استعمال نہیں کرتے جبکہ ایک بڑی اکثریت اختیار کا صحیح استعمال کرنے کی اہل ہی نہیں ہے اور اس نا اہلی میں یہ اکیلے نہیں۔ آپ گھروں کی ہی مثال لے لیجیئے۔ آپ کو اکثر گھروں میں یہ واقعات عام ملیں گے کہ بڑے بھائیوں نے چھوٹے بہن بھائیوں کا حق کھایا ہوگا، تایوں اور پھپھیوں نے مل کر اپنے مرحوم بھائی کے یتیم بچوں کے جائیدادوں پہ ڈاکہ ڈالا ہوگا، والدین نے اپنے بچوں پہ ہر قسم کی قدغن اور سختی لگائی ہوگی کہ ان کی زندگی میں ہر فیصلہ انہی کا چلے گا بھلے بچوں کی عمریں 30، 40 یا 50 سال ہی کیوں نہ ہو جائیں۔

پھر اگر آپ اپنے گلی محلے سڑک پر نکلیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ جنہیں ہم چھوٹو کہتے ہیں جو گھر کا چولہا جلانے کے لیے مختلف لوگوں کے ہاں کام کرتے ہیں اُن کے ساتھ کیا کچھ سلوک نہیں ہوتا۔ کون کون سی گالیاں انہیں سننی نہیں پڑتیں، کیا کچھ انہیں سہنا نہیں پڑھتا ہے۔ اس سے بھی اگر آپ اوپر جائیں تو ہمارے مدرسوں اور اسکولوں تک میں پڑھنے والے بچوں پہ استاد انتہا درجے کا ظلم کرتے ہیں الا ماشاءاللہ۔ پھر اگر آپ محکموں کی بات کریں خواہ وہ کوئی بھی محکمہ ہو آپ نائب قاصد ہیں، کلرک ہیں، اسسٹنٹ ہیں یا ڈائریکٹر ہیں جو بھی آپ سے اوپر ہوگا اکثر آپ کے ساتھ اچھے نہیں ہوں گے اور یقیناً جو آپ کے ماتحت ہوں گے ان میں بھی آپ کو لے کر کچھ نہ کچھ شکایات ضرور ہوں گی۔ کہیں نہ کہیں ان کی غلطی بھی ضرور ہوگی لیکن کہیں نہ کہیں ہماری پرورش اور معاشرت میں یہ چیز شامل ہے کہ جو شخص ہمارے ماتحت ہے ہمیں اس کا جینا حرام کرنا ہے۔

آپ ہماری بیوروکریسی کا ہی حال دیکھ لیجیئے۔ بیوروکریٹس جن کے پاس اختیار ہے ہمارے دفتری کاموں کے کرنے کا، اکثر فلاں نمبر کمرے میں جاؤ، فلاں صاحب سے دستخط کراو، فلاں صاحب سے لیٹر لاؤ جیسی رٹ لگائے رہتے ہیں جب کہ آپ انہی افسران کو اگر ان کے کسی اعلٰی افسر سے کوئی فون کرواتے یا کوئی خط لا کر دیتے ہیں تو جس کام کے کرنے میں عام طور پہ مہینوں لگاتے ہیں وہی کام وہ دنوں میں آپ کو کرکے دے دیتے ہیں۔ اگرچہ ایسے افسر بھی ہیں جنہیں اختیار کا صحیح استعمال آتا ہے پر بد قسمتی سے ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔

آپ یہ بھی ملاحضہ کر لیجیئے کہ جب بھی آپ کسی بیوروکریٹ کے ساتھ بیٹھیں گے وہ یہی رونا روئے گا کہ سیاستدان انہیں کام کرنے نہیں دیتے اور اگر آپ سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھیں گے تو وہ اگر کسی کے ماتحت آتے ہیں تو وہ ان کو گالیاں نکالتے ہیں کہ انہیں کام کرنے نہیں دیا جاتا۔ خواہ ان کی اپنی غلطی کیوں نہ ہو مگر یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ہمارے معاشرے میں اختیار کا صحیح استعمال نایاب ہو چکا ہے، ہمارے معاشرے میں جہاں کسی کو اختیار ملا، اُس نے خیانت کی، الاماشاﷲ۔ بہت ہی کم لوگ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں جنہیں اختیار کا صحیح استعمال آتا ہے اور جو اپنے ماتحت کے ساتھ نرم رویہ رکھتے ہیں ماسوائے تب جب اُنکے ماتحت کام کرنے والوں نے ٹھان لی ہو کہ شریف افسر کی کوئی بات نہیں ماننی۔

ان باتوں سے بھی تلخ بات یہ کہ سیانے کہتے ہیں"اگر کسی کا کردار پرکھنا ہو تو اسے اختیار دے کر دیکھو"۔ اس اعتبار سے ہمارے معاشرے میں کردار کی شدید کمی ہے۔ کیونکہ ہمیں احساس تک نہیں کہ ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اختیار کا صحیح استعمال نہیں آتا اور نہ ہی ہمیں یہ سکھایا جاتا ہے۔

اس کردار کے فقدان کا حل یہ ہے کہ سب سے پہلے تو ہمیں اس ذہنیت سے نکلنے کی ضرورت ہے کہ ہم ہی بہتر جانتے ہیں، جو فیصلے ہم کرتے ہیں وہی بہترین ہوتے ہیں اور کسی کا کوئی مشورہ یا کوئی بات ماننے سے وہ بڑا اور ہم چھوٹے ہو جائیں گے۔ سیاسی قیادتوں اور دیگر عہدیداران کو باالخصوص اس بات کا دھیان رکھنا چاہیئے کیونکہ اُنکے فیصلے معاشرے پر گہرے اثر چھوڑتے ہے۔ دوسرا یہ کہ ہمیں اپنے علم میں مزید اور لگاتار اضافہ کرتے رہنا چاہیے کیونکہ کُفر کی ایک بہترین تعریف ایک سیانےنے یہ کی ہے کہ حق بات کسی تک پہنچ جائے اور اُسکا دل گواہی بھی دے کہ یہ حق بات ہے، اس کے باوجود وہ کسی ذاتی فائدے کیلئیے یا پھر کسی ذاتی نُقصان کے ڈر سے نہ صرف ہٹ دھرم رہے بلکہ اُس بات کو آگے نا پہلائے تو اُسنے کُفر کیا۔ کفر یہاں لغوی معنوں کوئی شہ ڈھانپنے یا چُھپانے میں استعمال ہوا ہے اور اس بات سے مُراد ہے "حق بات جاننے کے باوجود اپنے کسی مقصد کے لیے اس کو چھپانا اور اُس پہ اپنی جہالت کا پردہ ڈالنا"۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت و دیگر عہدیداران کی اکثریت ذاتی یا پارٹی مفاد کے تحت فیصلے کرتی ہے نہ کہ قومی مفاد کے تحت۔

مزید یہ کہ مشورہ کرنا اور اچھے مشورے پر عمل کرنا یہ سُنت رسولﷺ ہے نہ کہ کوئی شرم کی بات۔ اگر آپ سے کوئی چھوٹا یا آپ کا کوئی ماتحت کوئی ایسی بات کردیتا ہے جو آپ کے موجودہ منصوبے یا فیصلے سے بہتر ہے تو اس پہ عمل کرنے سے نہ آپ چھوٹے ہوجائیں گے اور نہ ہی وہ آپ کے اوپر غالب آجائیگا اور نہ ہی کسی کے مشورے پہ عمل نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اُسکی بے عزتی ہوئی ہے۔

اس ضمن میں مکمل طور پر یہ جہالت تبھی ختم ہو سکتی ہے جب انفرادی طور پر ہر شخص خود اس بات پہ عمل کرے کہ جو حق بات ہے وہ سیکھنے، کہنے اور منوانے سے نہیں ڈرے گا اور پیچھے نہیں ہٹے گا۔ چو نکہ سیاسی فیصلوں کا معاشرے پر کافی گہرا اثر ہوتا ہے تو ہمارے سیاستدانوں کو خاص طور پر اس بات پر عمل کرنا چاہیئے۔ کیونکہ ہمارے ملک کو مضبوط کردار اور صحیح فیصلوں کی جتنی ضرورت آج ہے، یہ ضرورت شاید پہلے کبھی اتنی شدید نہیں تھی۔ یقینًایہ ایک کام مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ یاد رکھیے سب سے بڑا جہاد، جہادِ اکبر، جہاد بالنفس ہے۔

Check Also

Christmas

By Javed Chaudhry