Islam Ki Taleemat Aur Jaranwala (1)
اسلام کی تعلیمات اور جڑانوالہ (1)
حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ یہودیوں کی ایک جماعت آئی اور رسول اللہ ﷺ کو قف کے علاقے کی دعوت دی۔ چنانچہ، آپﷺ قف چلےگئے۔ یہودیوں نے کہا، "ابوالقاسم، ہمارے ایک مرد نے عورت کے ساتھ زنا کیا ہے۔ تو ان پر فیصلہ سنا دیجیئے"۔ انہوں نے رسول اللہﷺ کے لیے ایک تکیہ رکھا جس پر حضورپاکﷺ بیٹھ گئے اور فرمایا، "تورات لاؤ"۔ تورات لائی گئی تو آپﷺ نے اپنے نیچے سے تکیہ ہٹا کر اس پر تورات رکھ دی اور کہا، "میں تجھ پر اور اس پر جس نے تجھے نازل کیا ایمان لایا"۔ (سنن ابوداؤد 4449)
روایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اکثر مساجد میں غیرمسلموں کے ساتھ عقائد کے معاملات پر بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے، اس سلسلے میں نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مذہبی معاملات پر مکالمہ و بحث صرف ایک مثال ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مساجد میں بحث کرنا سُنتِ رسولﷺ ہے۔ مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے نبیِ کریم ﷺ کی تعلیمات بالکل واضح ہیں، تاہم، جڑانوالہ کا حالیہ سانحہ اور ماضی قریب میں توہینِ رسالت اور توہینِ مذہب کے نام پر پیش آنے والے اس طرح کے واقعات نبی اکرمﷺ کی تعلیمات کی نفی ہیں۔
ہجرت کے سالوں میں نبی اکرمﷺ نے مکہ والوں سمیت دوسرے غیر مسلموں کے ساتھ مختلف معاہدے کیے۔ آنحضرتﷺ اور آپ کے ساتھیوں نے ان معاہدوں کا احترام کیا۔ رسولﷲﷺ کی قیادت میں اکثریت اور اقلیت کے حقوق کو یقینی بنایا گیا اور یہ حقوق کبھی پامال نہیں ہوئے۔ آپﷺ دینی معاملات میں بحث و مباحث سے بھی کبھی پیچھے نہیں ہٹے، پھر چاہے وہ مباحث مسلمانوں کے ساتھ ہوں یا غیر مسلموں کے ساتھ۔ آپﷺ غیر مسلموں کے ساتھ اس طرح کے مباحث میں اکثر دوسرے انبیاءؑ کو نبوت میں اپنا بھائی کہتے تھے۔
ہجرت کے چند سال بعد 8 ہجری میں جب فتح مکہ ہوئی تو رسول اللہﷺ اپنے ساتھیوں سمیت شہرِ مکہ میں بطورِ فاتح داخل ہوئے۔ جس شہر سے رسول اللہﷺ اور اُنکے ساتھیوں کو نکلنے پر مجبور کیا گیا تھا وہ شہر اور اسکے لوگ اب حضورِ پاکﷺ اور آپﷺ کے ساتھیوں کے رحم وکرم پر تھے۔ آپﷺ نے مکے والوں کے جبر کا بدلہ لینے کے بجائے شہرِ مکہ کے تمام لوگوں کے لیئے عام معافی کا اعلان کیا۔ اس قابلِ رشک ظرف میں کئی اسباق پوشیدہ ہیں، جن میں سے چند ایک یہ ہیں کہ حکمت بدلہ لینے میں نہیں بلکہ اتحاد و امن کو ترجیح دینے میں ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسولﷺ کا مقصد ذاتی نہیں بلکہ عالمی تھا، وہ رحمت المسلمین نہیں بلکہ رحمت العالمینﷺ تھے۔ آنحضرتﷺ جبراً مذہب کی تبدیلی پر بالکل یقین نہیں رکھتے تھے کیونکہ یہی حکمِ الہٰی ہے۔
اسلامی روایات ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہیں جہاں خود رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہؓ نے غیر مسلم شہریوں کے ساتھ عزت و احترام کا سلوک اختیار کیا۔ مُسلمانوں کے خلاف غیر مسلموں کے حق میں عدالتی فیصلے آنے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک عیسائی کا ایک تاریخی واقعہ ہے جو ایک بار خلیفہِ وقت حضرت عمرؓ کے پاس آیا۔ اس نے شکایت کی کہ مصر کے گورنر کے بیٹے نے اس پہ ناحق کوڑے برسائے ہیں۔ جب اُس عیسائی کا الزام درست ثابت ہوا توحضرت عمرؓ نے ولیِ مصر اور اُن کے بیٹے دونوں کو مدینہ بلوایا۔ اس کے بعد آپؓ نے عیسائی کو حکم دیا کہ وہ ولیِ مصر کے بیٹے کو کوڑے مار کر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
کیرن آرمسٹرانگ (Karen Armstrong)، جو مذہبی موضوعات پر مشہور مصنف ہیں، اپنی کتاب "محمد: ایک سوانح عمری (Muhammad: A Biography of the Prophet)" میں اسی طرح کی ایک مثال کا ذکر کرتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ مسلم اسپین (711-1492 عیسوی) میں عیسائیوں اور یہودیوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی اور ہسپانویوں کو اس بات پر فخر تھا کہ وہ ایک ترقی یافتہ ثقافت سے تعلق رکھتے تھے جو باقی یورپ سے صدیوں آگے تھی۔ کیرن لکھتی ہیں کہ ایک مرتبہ اسپین کے شہر الاندلس میں ایک دن ایک عیسائی راہب پرفیکٹس(Perfectus) سے مسلمانوں کے ایک گروہ نے پوچھا کہ آیا عیسیٰؑ سب سے عظیم نبی ہیں یا محمدﷺ؟ راہب پہلے محتاط نظر آیا لیکن پھر جذباتی انداز میں نبی اکرمﷺ کے خلاف پھٹ پڑا اور اُن کے بارے میں اہانت آمیز کلمات کہے۔ جب پرفیکٹس کو قاضی کے سامنے لایا گیا تو قاضی نے پرفیکٹس کے حق میں فیصلہ دیا اور مسلمانوں کے گروہ کو مجرم قرار دیا کہ اُنہوں نے راہب کو ناحق اکسایا۔
خود رسول اللہ ﷺنے عیسائیوں سے تحریری طور پر حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔ قصہ مشہور یہ ہے کہ مصر میں سینائی میں واقع سینٹ کیتھرائن (St. Catherine) خانقاہ کے متولی مدینہ منورہ آئے، جہاں رسول اللہ ﷺ نے ان کی میزبانی کی۔ جانے سے پہلے، متولیوں نے اپنے خوف کا اظہار کیا کہ "جب مسلمان طاقتور ہو جائیں گے تو وہ ہمیں مار ڈالیں گے اور ہماری عبادت گاہوں کو تباہ کر دیں گے"۔ آپ ﷺ نے فرمایا، "تم لوگ مجھ سے اور میری امت کے ہاتھوں سے محفوظ رہو گے"۔ متولیوں نے رسول اللہﷺ سے تحریری اقرار طلب کیا۔ آپﷺ نے فوراً ایک صحابیؓ سے متن لکھنے کو کہا، کاغذ پر اپنے مبارک ہاتھ کی مہر لگائی، اور عہد ان کے حوالے کر دیا۔ یہ عہدنامہ آج بھی سینٹ کیتھرائن میں آویزاں ہے۔ جڑانوالہ واقعہ سے متعلق اس عہدنامے کے چند اہم نکات درج ذیل ہیں۔
"یہ خط رسول اللہ ﷺ ابن عبداللہ کی جانب سے تحریر کیا گیا جنہیں اللہ کی طرف سے مخلوق پر نمائندہ بنا کر بھیجا گیا تاکہ خدا کی طرف کوئی حجت قائم نہ ہو۔ بے شک اللہ قادر مطلق اور حکمت والا ہے، یہ خط اس میں داخل ہونے والوں کے لیے ہے یہ معاہدہ ہمارے اور دور و نزدیک عربی اور عجمی، شناسا اور اجنبی اور عیسائیوں اور حضرت عیسٰیؑ کے پیروکاروں کے درمیان ہے، یہ خط ایک حلف نامہ ہے اور جو اس کی خلاف ورزی کرے گا وہ کفر کرے گا۔
یہ (عیسائی) میری رعایا ہیں اور میری حفاظت میں ہیں، ان پر ہر طرح کا جزیہ ساکت ہے جو دوسرے ادا کرتے ہیں، انہیں کسی طرح مجبور، خوفزدہ، پریشان یا دباؤ میں نہیں لایا جائے گا، ان کے قاضی اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں، ان کے راہب اپنے مذہبی احکام اور اپنی رہبانیت کے مقامات میں آزاد ہیں، کسی کو حق نہیں ان کو لُوٹے، ان کی عبادت گاہوں اور کلیساؤں کو تباہ کرے اور ان عمارتوں میں موجود اشیاء کو اسلام کے گھر میں لائے۔ جو ایسا کرے گا وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے حلف کی خلاف ورزی کرے گا۔
کوئی ان سے جھگڑا یا بحث نہ کرے، ان سے قرآن کے احکام کے سوا کوئی بات نہ کرو"۔ اور اہل کتاب سے نہ جھگڑو مگر ایسے طریقے سے جو عمدہ ہو" (القرآن)، پس یہ مسلمانوں کی جانب سے ہر طرح کی پریشانی سے محفوظ ہیں۔
کسی عیسائی عورت کی مسلمان سے اس کی مرضی کے خلاف شادی نہیں ہو سکتی، اس کو اس کے کلیسا جانے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اِن کے کلیساؤں کا احترام ہوگا ان کی عبادت گاہوں کی تعمیر یا مرمت پر کوئی پابندی نہیں ہوگی اور انہیں ہتھیار اٹھانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ قیامت تک اور اس دنیا کے اختتام تک اس حلف کی پاسداری کرے"۔